Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ میں ناکامی اور عمران خان کا مشورہ، اجمل جامی کا کالم

پاکستان کو ورلڈ کپ کے نو میچوں میں سے پانچ میں شکست کا سامنا رہا۔ فوٹو: اے ایف پی
بابر کی کپتانی بری تھی، سنچری تک سکور نہ کر سکے، شاہین پہلے اوورز میں زیادہ وکٹیں نہ لے سکے، حارث ورلڈ کپ کے مہنگے ترین فاسٹ باولر بن گئے، پہلی بار کسی ورلڈ کپ میں سپنرز مکمل طور پر ناکام ہوئے، نسیم شاہ دستیاب نہیں تھے، مڈل آرڈر میں ڈیپتھ نہیں تھی، فخر کا بلا تاخیر سے چلا، انجریز ہوئیں،  ٹیم گروپنگ کا شکار تھی، لڑکے پہلی بار بھارت میں کھیل رہے تھے۔
چیف سلیکٹر تنازع کا شکار ہوئے اور ورلڈ کپ کے دوران ہی مستعفی ہوئے، کپتان کی چیٹ پبلک ہوئی، ٹیم شاپنگ کرتی رہی، بریانی اور مٹن کھانے کا الزام لگا، میڈیا منیجر جگہ جگہ سیلفیاں لیتے رہے، واپس بلا لئے گئے، پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ اپنی کرسی بچانے کے مشن پر مصروف تھے اور آخر میں وہی جو اکثر ہوتا رہا، فلاں ٹیم فلاں سے ہارے، ہم فلاں سے اتنے مارجن سے جیتیں تو شاید سیمی فائنل کھیل پائیں۔
کیا ٹیم پاکستان کی زبان زد عام ناکامی کی کہانی کچھ ایسی ہی نہیں؟ لیکن کیا ان وجوہات میں اس ایک وجہ کا بھی ذکر یا فکر موجود ہے جو انتہائی بنیادی اور اہم ترین تھی اور رہے گی؟ جواب ہے نہیں! 
پی سی بی کے ایک انتہائی ذمہ دار سے راقم کی تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے بنا لگی لپٹی اعتراف کیا کہ ایشا کپ کے دوران جب ٹیم سائیکالوجسٹ نے کھلاڑیوں کو ڈپریشن، کارکردگی کے پریشر، خود اعتمادی اور مینٹل ہیلتھ  کے لیے اوپن اور مخصوص سیشنز کی پیشکش کی تو محض دو چار کھلاڑی ان کے ساتھ چند لمحے بیٹھنے کو تیار ہوئے۔
سری لنکا کے دورے کے دوران ٹیم نے دو چار اوپن سیشن ضرور لیے لیکن جب باری آئی ورلڈ کپ کی تو کسی ایک کھلاڑی نے ڈاکٹر مقبول بابری کی خدمات لینا مناسب نہ سمجھیں۔ 
بارہا بتایا گیا کہ بھارت میں پہلی بار کھیلنے کا پریشر ہوگا، شائقین ہر میچ میں مخالف سمت میں بیٹھے ہونگے، بڑا ٹورنامنٹ ہے بڑا دباو ہوگا، آئیے سیشن کرتے ہیں کہ شاید کچھ ذہنی پختگی حاصل ہوسکے مگر ہیچ آرزو مندی، ہمارے کھلاڑی جواب میں کہتے رہے کہ ’جناب جائیے اپنا کام کیجیے ہمیں ایسے سیشنز کی چنداں ضرورت نہیں۔‘

حریف انڈیا نے تمام آٹھ میچوں میں فتح اپنے نام کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کوئی ایک کھلاڑی مقبول باقری کے ساتھ تفصیلی نشست کے لیے تیار نہ ہوا۔  ثبوت کے طور پر ان  تمام کی آن گراونڈ باڈی لینگوئج دیکھ لیجیے، یعنی درشن کو محض تھکے ہار ے اور بے بس چہرے تھے۔ 
کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئج، گرومنگ، ذہنی پختگی، خود اعتمادی اور انگریزی زبان کا ایک لفظ ہوتا ہے ’ڈمینر‘، یہ سب ٹیم پاکستان کے ہاں سرے سے مسنگ تھا۔ ماڈرن کرکٹ  میں کامیابی کے لیے درج بالا نفسیاتی مضبوطی  کے جزو اور ٹیلنٹ کی تال میل ہو تو پھر کوہلی بنتا ہے، میکسول بنتا ہے، راشد خان بنتا ہے، ولیمسن بنتا ہے، ڈی کاک بنتا ہے۔ 
ٹیلنٹ ہو مگر سائیکو لوجیکل گرومنگ نہ ہو تو پھر شاہین  ہو یا حارث، سپیڈ ختم ہوتی ہے، اعتماد ختم ہوتا ہے، چہرہ لٹکتا ہے اور جسم تھکاوٹ کا شکار آن فیلڈ دکھائی دیتا ہے۔
اس کے برعکس ٹیلنٹ کے ساتھ جب یہی صلاحیت کسی کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہو تو زخمی ہو کر ایک ٹانگ پر کھڑا گلین میکس ویل ناممکن کو ممکن کرتے ہوئے افغانستان کے خلاف میچ جیتتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ 
کوہلی آؤٹ آف فارم رہا، 2021 میں اس نے اس بابت انکشاف کیا کہ وہ دو ہزار چودہ پندرہ میں ڈپریشن کا شکار ہوا تھا، مگر پھر کیا ہوا؟ محنت کے ساتھ وہ مسلسل نفسیاتی سپورٹ کے لیے ماہرین کے ساتھ سیشن لیتا رہا اور بالآخر دوبارہ کامیاب ہوا۔
گلین میکسویل 2019 میں بریک ڈاؤن کا شکار ہوا، شدید ڈپریشن میں چلا گیا، پھر کیا ہوا؟ ماہرین کی خدمات اسے بھی لینا پڑیں اور وہ بھی آج ہیرو ہے۔

وراٹ کوہلی ڈپریشن کا شکار رہنے کے باوجود بہترین پرفارمنس دیتے رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انگلش کپتان بین سٹوکس، سابق کپتان ٹریسکوتھک، بلے باز جوناتھن ٹروٹ، عظیم آل راؤنڈر اینڈریو فلینٹوف، بیر سٹا، اور نہ جانے کون کون اس فیز سے گزرا لیکن کسی نے اپنے اپنے مقبول بابری کو ’ناں‘ نہ کی بلکہ لپک لپک کر ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ 
مائیکل فیلپس کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا۔ امریکی تیراک دنیا کا واحد اتھلیٹ ہے جو اولمپکس میں 28 میڈل جیت چکا ہے۔ اس کی پوری زندگی ایک فلم کی مانند ہے۔ اس  کی کامیابیاں اور ناکامیاں، مختلف ادوار میں اس کی ذہنی حالت اور نشے کی لت تک میں مبتلا ہونا اور اس سب سے  کامیابی سے نکلنا ایک استعارہ ہے۔ ایک کہانی ہے ایک سبق ہے۔
دس سال کی عمر میں امریکہ کے تمام قومی ریکارڈز توڑ ڈالے، پندرہ سال کا سکول طالب علم تھا تو اولمپکس کھیلا اور پھر کامیابیوں کی باقی داستان ایک الگ موضوع ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ زخمی ہوا، ڈاکٹرز نے کہا وہ 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں حصہ نہیں لے سکے گا، اس نے ہاتھوں کی بجائے  پاؤں سے تیراکی شروع کر دی تاکہ اضافی قوت حاصل کر سکے۔
مائیکل فیلپس نہ صرف بیجنگ اولمپکس کھیلا بلکہ آٹھ میڈل جیت کر ریکارڈ بنا ڈالا۔ اس کا بچپن ان گنت عذابوں کی کہانی سے تعبیر ہے۔ ماں باپ کے بیچ تنازعات سے متاثر شدہ بچپن جس کے اثرات اس پر گاہے گاہے مرتب ہوتے رہے۔
دولت شہرت ملی تو نشے کی علت میں مبتلا ہوا۔ کئی بار جیل گیا، ماں نے اور ماہرین نے ہمیشہ اسے ہمت دلائی اور یہ اس کے بعد بھی 2016 کے اولمپکس میں پانچ میڈلز جیتنے میں کامیاب ہوا۔

بین سٹوکس سمیت دیگر کھلاڑی بھی ڈپریشن کا شکار رہ چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

 مائیکل فیلپس نے 2019 میں ایک ٹویٹ کے ذریعے آپ بیتی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کس قدر ڈپریشن اور ذہنی امراض کا شکار رہا اور کیسے ماہرین کی مدد سے وہ اس سب کا علاج کرنے میں کامیاب ہوا۔ 
اور تو اور ابھی 2019 کے ورلڈ کپ میں پاک بھارت میچ سے پہلے کا واقعہ سن لیجیے۔ اس وقت کے وزیر اعظم اور سابق کپتان عمران خان سے پوچھا گیا کہ ٹیم پاکستان کیسے بھارت کو بھارت میں شکست دے سکتی ہے؟ ان کا جواب تھا ’مینٹل سٹرینتھ سے۔‘
نوٹ: لکھاری صحافتی کیرئیر کے آغاز میں سپورٹس بیٹ رپورٹ کرتا رہا اور یونیورسٹی لیول تک کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔

شیئر: