Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اعتراضات حقائق کے برخلاف ہیں، چیف جسٹس کا جسٹس اعجاز کو جواب

جسٹس اعجاز الاحسن کہا تھا کہ دو سپیشل بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی سے اجازت نہیں لی گئی (فوٹو: سپریم کورٹ)
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے خط کا جواب دے دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’مجھے جسٹس اعجاز الاحسن کے خط پر مایوسی ہوئی۔‘
منگل کو خط کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’میرے دروازے آپ اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کے لیے کھلے ہیں، آپ نے اپنے تحفظات کے لیے نہ تو مجھ سے انٹرکام کے ذریعے بات کی نہ مجھ سے رابطہ کیا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’خط موصول ہونے پر میں نے فوری طور پر آپ سے انٹرکام پر رابطہ کیا لیکن جواب نہ ملا، میری ہدایت پر سٹاف نے آپ کے آفس سے رابطہ کیا تو بتایا گیا آپ جمعہ کے روز لاہور کے لیے نکل چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اگر مشاورت کا عمل کو نہ کرنا ہوتا تو کیا حکم امتناعی کے باوجود آپ اور جسٹس سردار طارق سے مشاورت اپنے اوپر لازم کرتا؟ مشاورت کے حوالے سے میں آپ کو اپنا بطور چیف جسٹس سب سے پہلا دستخط کرنے والا آرڈر یاد دلاتا ہوں۔‘
بینچز کی تشکیل ظاہر کرتی ہے کہ ہر جج کو ایک جیسا احترام دیا جاتا ہے، خصوصی بینچز کسی جج کو نکالنے یا ڈالنے کے لیے تشکیل نہیں دیے جا رہے۔ آپ کے اعتراضات حقائق اور ریکارڈ کے برخلاف ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ’بینچز کی تشکیل کے حوالے سے کوئی تجویز ہے تو بتائیے اس حوالے سے اجلاس منعقد کیا جائے گاَ۔‘
چیف جسٹس نے جسٹس اعجاز الاحسن کے 17 نومبر کے خط کا جواب سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری بھی کیا ہے۔
واضح رہے کہ پیر کو جسٹس اعجازالاحسن نے ایک خط میں سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’دو سپیشل بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی سے اجازت نہیں لی گئی۔‘
رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام خط میں جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا تھا کہ ’سات دسمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوا۔ جہاں میں نے بطور ممبر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔ متعدد فون کالز کے بعد مجھے کمیٹی کا ایجنڈا ڈھائی بجے فراہم کیا گیا۔‘

شیئر: