Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب اسرائیل نے عراقی یہودیوں کو تل ابیب منتقل کرنے کے لیے فضائی پل قائم کیا

1952 کے آغاز تک عراقی یہودیوں کی بڑی تعداد کو تل ابیب منتقل کیا جا چکا تھا۔ (فوٹو: العربیہ)
 اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو اس سرزمین پر بسانے کا آغاز ہوا جس کے تحت یورپ کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں آباد یہودیوں نے بھی  اپنے نئے وطن کا رُخ کیا۔
یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے ایک ایسے ملک کی بنیاد تھی جہاں وہ خود کو مکمل طور پر محفوظ تصور کر سکتے تھے۔
دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح 50 کی دہائی میں عراق سے بھی یہودیوں کی اسرائیل نقل مکانی کا آغاز ہوا اور بڑی تعداد میں عراقی یہودیوں کو تل ابیب منتقل کیا گیا۔
2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت عراق میں صرف تین یہودی باقی ہیں۔
اس حوالے سے العربیہ نیٹ نے ان واقعات کی منظر کشی کی ہے جب اسرائیل نے عراق سے یہودیوں کے انخلا کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے یہودیوں کو اسرائیل لانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جن کے تحت فضائی راستوں کے ذریعے عراق سے یہودیوں کو تل ابیب منتقل کیا گیا۔
آزادی کے تقریبا دو برس بعد اسرائیل نے 5 جولائی 1950 کو یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کا قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر میں مقیم یہودیوں کو اسرائیل واپس آنے کے لیے کہا گیا۔ 
حکام کی جانب سے اسرائیل آنے والے یہودیوں کو فوری طور پر شہریت دینے کے علاوہ ان کی رہائش کے انتظامات کے حوالے سے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کیا گیا۔
نقل مکانی کے قانون میں اس امر کی خاص طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں کے لیے تمام رکاوٹیں ختم کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ انہیں جلد از جلد اسرائیل میں آباد کیا جا سکے۔

یہودی مائیگریشن قانون

عراقی یہودیوں کا شمار دنیا کی قدیم ترین یہودی آبادیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1950 کے اوائل میں عراق کے یہودیوں میں ڈاکٹرز، وکیل اور اسی قسم کے اعلیٰ پیشوں پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

1951 کے آغاز میں عراقی حکومت نے یہودیوں کو مشروط نقل مکانی کی اجازت دی جس کے تحت یہودیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں۔ (فوٹو: العربیہ)

اعلیٰ تعلیم یافتہ عراقی یہودیوں کو اسرائیل میں لا کر آباد کرنا اسرائیلی حکام کی سب سے بڑی خواہش تھی جسے مدنظر رکھتے ہوئے 1950 میں قانون سازی کی گئی تاکہ عراقی یہودیوں کے پڑھے لکھے طبقے کو اسرائیل میں لاکر آباد کیا جاسکے جنہیں عراق میں کافی مسائل کا سامنا تھا۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی عراق نے 1940 کی دہائی کے اوآخر میں ایسے قوانین نافذ کیے جن کے تحت یہودیوں کی نقل مکانی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس کے ساتھ ہی بغداد میں صہیونی تحریک کو وطن دشمنی پر مبنی تحریکوں کی فہرست میں شامل کیا جاچکا تھا جس کے بعد ان تمام یہودیوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا جو اس تنظیم سے وابستہ تھے۔
بعدازاں عراق سے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو قید کرنے کے احکامات صادر ہوئے جس کے بعد ایسے افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔
1950 میں جب اسرائیلی حکام کی جانب سے مائیگریشن کا قانون منظور ہوا تو عراقی یہودیوں کی وطن واپسی کے لیے اسرائیلی حکومت نےعراقی حکام سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ 
1951 کے آغاز میں عراقی حکومت نے یہودیوں کو مشروط نقل مکانی کی اجازت دی جس کے تحت یہودیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں جن کے تحت کوئی بھی یہودی اپنے ساتھ 140 ڈالر سے زیادہ رقم نہیں لے جاسکتا تھا۔
علاوہ ازیں ذاتی سامان لے جانے پر بھی پابندی عائد تھی۔ اس قانون کے تحت وہ اپنے ساتھ 66 پونڈ وزن سے زیادہ کا سامان بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔
یہودیوں پر یہ پابندی بھی عائد تھی کہ وہ اپنے ساتھ قیمتی زیورات نہیں لے جا سکتے تھے۔
عائد کردہ شرائط کے حوالے سے عراقی حکام کا خیال تھا کہ یہودی ان شرائط پر عمل کرنے سے ہچکچائیں گے اور واپسی کے خیال سے دستبردار ہو جائیں گے۔

عراق میں عبدالکریم قاسم کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بہت سے عراقی یہودی اسرائیل منتقل ہو چکے تھے۔ (فوٹو:العربیہ)

ان سخت شرائط کے باوجود عراقی حکام یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ عراقی یہودیوں کی بڑی تعداد نے نقل مکانی کی تیاریاں شروع کر دیں اور مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد فوری طور پر90 ہزار عراقی یہودیوں نے اپنے ناموں کا اندراج نقل مکانی کرنے والوں کی فہرست میں درج کروا دیا۔

فضائی پل

یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے حوالے سے عراقی حکام کو یہ خدشہ تھا کہ اگر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر گئی تو ریاستی انتظامیہ کو شدید خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
دوسری جانب اسرائیل نے بڑی تعداد میں عراقی یہودیوں کو فضائی راستے سے قبرص پہنچایا جہاں سے انہیں تل ابیب منتقل کیا گیا۔
عراقی یہودیوں کو لانے کے لیے اسرائیل کی جانب سے نقل مکانی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فضائی پل قائم کیا گیا تاکہ مسلسل پروازوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں عراقی یہودیوں کو اسرائیل پہنچایا جاسکے۔
اس حوالے سے جو آپریشن شروع کیا گیا تھا اسے ’عذرا‘ اور’نحمیاہ‘ کا خفیہ نام دیا گیا۔ 
1952 کے آغاز تک عراقی یہودیوں کی بڑی تعداد کو تل ابیب منتقل کیا جا چکا تھا اور عراق میں صرف 6 ہزار یہودی باقی رہ گئے تھے۔
عراق میں عبدالکریم قاسم کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بہت سے عراقی یہودی اسرائیل منتقل ہو چکے تھے۔ 1968 تک عراق میں باقی رہنے والے یہودیوں کی تعداد تقریبا دو ہزار رہ گئی تھی۔
عراقی یہودیوں کی تعداد میں روز بہ روز کمی آرہی تھی۔ سال 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت عراق میں صرف تین یہودی مقیم ہیں۔

شیئر: