Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیارہویں عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر شامی معلمہ کے تاثرات

المالکی نوجوان نسل کو مادری زبان میں پڑھنے اور بولنے کی ترغیب دینا چاہتی ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ٹھیک 50 سال قبل اعلان کیا کہ عربی کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر اپنایا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق انتیس سال بعد 2012 میں اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم نے عربی زبان کو اپنانے کی سالگرہ کے موقع پر عالمی عربی زبان کا دن مقرر کیا۔
یونیسکو کی ویب سائٹ  کے مطابق عربی زبان دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے، جسے 400 ملین سے زیادہ  افراد  نے اپنا رکھا ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ عربی زبان کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے جس میں شاعری، ادب، قانون، سائنس اور فلسفہ پر مشتمل تحریری کاموں کا خزانہ موجود ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق افسوسناک طور پر تحریری اور زبانی طور پر عربی زبان کسی حد تک زوال پذیر سمجھی جا رہی ہے۔
بچوں کی متعدد کتابوں کی مصنفہ اور شام کی تعلیمی مشیر نحلہ المالکی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے انسٹاگرام پیج پر نوجوان نسل کو مادری زبان میں پڑھنے اور بولنے کی ترغیب دینا چاہتی ہیں۔

عربی زبان دنیا میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ فوٹو عرب نیوز

نحلہ المالکی ان دنوں اپنے شوہر اور دو بچوں کے ہمراہ دبئی میں قیام پذیر ہیں، ان کی پیدائش جدہ میں ہوئی جہاں وہ 1990ء کی دہائی تک ہر جگہ رابطے کے لیے اپنی مادری زبان عربی میں بات چیت کرتے ہوئے کامیاب رہیں۔
نحلہ المالکی کا کہنا ہے کہ عربی خوبصورت اور فصیح زبان ہے جو ہماری میراث ہے اور یہ میری شناخت کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔
 بچوں کی کتابوں کی مصنفہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ ان کے  بچے اور دنیا کے دوسرے عرب بچے اس بات کو محسوس کریں کہ وہ اپنی شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کی سماجی زندگی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا مملکت دیگر جگہوں سے مختلف ہے، یہاں اب بھی خاندانوں اور معاشرتی سماجی زندگی کے درمیان گھریلو ماحول کو برقرار رکھا گیا ہے۔

اقوام متحدہ  نے 50 سال قبل عربی کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر اپنایا۔ فوٹو عرب نیوز

نحلہ المالکی نے بتایا کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو عربی کے علاوہ دیگر زبانوں کی بھی قدر کرتا ہے، میرے بھائی اطالوی، جرمن اور فرانسیسی تین زبانیں بولتے ہیں۔
سعودی عرب میں رہنے کے بعد المالکی نے بیروت میں اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی  اور یونیورسٹی آف مانچسٹر اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی زبان کی تدریس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
ایک تعلیمی مشیر کے طور پر ان کی ذمہ داریوں میں اساتذہ کو تربیت دینا، یونیورسٹیوں کا معائنہ اور آڈٹ کرنا اور کورس کی کتابیں لکھنا شامل ہے۔
دبئی میں قیام کے تقریباً سات سال بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہاں دیگر زبانوں اور ثقافتوں کے کلچر کے باعث ان کا چار سالہ بیٹا عربی بولنے سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو برطانوی نصاب کے سکول میں داخل کرایا جہاں اسے انگریزی بولنا اور سمجھنا زیادہ آسان اور آرام دہ لگتا تھا، میں اس سے انگریزی میں بات کرتی تھی لیکن یہ ٹھیک نہیں تھا۔

کلاس روم میں عربی پڑھانے کے لیے نئے انداز کی ضرورت ہے۔ فوٹو عرب نیوز

نحلہ المالکی کا یہ ذاتی مشاہدہ  سوشل میڈیا کے ذریعے دیگر عرب والدین کی مدد کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا، انہوں  نے بتایا کہ وہ ستمبر 2023 سے عربی میں پڑھنے اور بولنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے والدین کے ساتھ ساتھ عرب زبان کے شائقین کی رہنمائی کرنے والی مختصر لیکن منظم اور مفید ویڈیوز سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کر رہی ہیں۔
اپنی کچھ ویڈیوز میں وہ عربی پڑھانے، بچوں کی اعلیٰ معیار کی عربی کتابوں تک رسائی اور پڑھنے کی خواہش کے بارے میں غلط فہمیوں پر بات کرتی ہیں۔
نحلہ المالکی کا خیال ہے کہ سماجی سطح پر عربی کم بولی جا نے کی کئی وجوہ ہیں، خاص طور پر اس کا ایک سبب بڑے خلیجی شہروں میں ایسے علاقے ہیں جہاں زیادہ تر دیگر غیر ملکی آباد ہیں۔
گھر اور سکول کے کلاس روم میں جس طرح سے عربی پڑھائی جا رہی ہے اس کے لیے ایک نئے انداز کی ضرورت ہے جس میں جدت، تفریح، تخلیقی صلاحیتوں کو متعارف کرایا جائے۔
 

شیئر: