Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی اور برطانوی افواج کے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں پر حملے، پانچ ہلاک

حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں کے حملوں کے بعد سے امریکہ کی جانب سے یہ پہلا جواب سامنے آیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکی اور برطانوی افواج نے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے 12 سے زائد ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ حوثی باغیوں کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ان حملوں میں پانچ افراد ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو حوثی باغیوں کے ترجمان جنرل یحییٰ ساری نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا  کہ ’ امریکی اور برطانوی فورسز کو یمنی عوام کے خلاف مجرمانہ جارحیت کی پوری ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور انہیں سزا اور جواب سے بغیر نہیں جانے دیا جائے گا۔ ‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو متعدد امریکی حکام نے بتایا کہ جمعرات کو ہونے والے ان حملوں میں بحری جہاز سے فائر کیے ٹام ہاک میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق فوجی اہداف میں لاجسٹک مرکز، فضائی دفاعی نظام اور ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کے ٹھکانے شامل تھے۔ یمن کے دارالحکومت صنعا میں موجود ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافیوں نے جمعے کو علی الصبح چار دھماکوں کی آوازیں سنیں مگر انہیں آسمان پر کوئی جنگی طیارے نظر نہیں آئے۔
الحديدہ شہر کے دو رہائشیوں امین علی صالح اور ہانی احمد نے بتایا کہ انہوں نے پانچ زوردار دھماکوں کی آواز سنی۔ الحديدہ، بحیرہ احمر پر واقع ہے اور حوثیوں کے کنٹرول میں سب سے بڑا بندرگاہی شہر ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے حوثیوں کے ٹھکانوں پر فوجی حملوں کو ’کامیاب‘ قرار دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بین الاقوامی جہاز رانی پر حملوں کا ذمہ دار ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کو سمجھتے ہیں۔
بیان کے مطابق ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی مزید حملے کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا تھا۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں کے حملوں کے بعد سے امریکہ کی جانب سے یہ پہلا جواب سامنے آیا ہے۔

حوثیوں نے 19 نومبر سے اب تک درجنوں ڈرونز اور میزائلوں پر مشتمل 27 حملے کیے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

اس مربوط فوجی حملے سے ایک ہفتہ قبل امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے حوثیوں کو حملے بند کرنے یا ممکنہ فوجی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے حتمی انتباہ جاری کیا تھا۔
اس انتباہ کا کچھ اثر بھی دکھائی دیا اور کئی روز تک حملے رکے رہے لیکن منگل کو حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کو نشانہ بناتے ہوئے اب تک کے سب سے زیادہ ڈرونز اور میزائل فائر کیے۔ تاہم امریکی اور برطانوی بحری جہازوں اور امریکی لڑاکا طیاروں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 18 ڈرونز، دو کروز میزائل اور ایک اینٹی شپ میزائل مار گرایا۔ اور جمعرات کو بھی حوثیوں نے خلیج عدن میں ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل فائر کیا۔
ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا جس نے 19 نومبر سے اب تک درجنوں ڈرونز اور میزائلوں پر مشتمل 27 حملے کیے ہیں، جمعرات کو کہا کہ یمن میں اس کے ٹھکانوں پر امریکی فوج کے کسی بھی حملے کا شدید فوجی ردعمل سامنے آئے گا۔
ملیشیا کے سپریم لیڈر عبدالملک الحوثی نے اپنی ایک گھنٹہ طویل تقریر کے دوران کہا کہ ’کسی بھی امریکی حملے کا جواب صرف اس آپریشن کی سطح تک نہ ہو گا جو حال ہی میں 24 سے زیادہ ڈرونز اور متعدد میزائلوں سے کیا گیا تھا، بلکہ اس سے بڑا ہو گا۔‘

امریکی حکام کے مطابق فوجی اہداف میں لاجسٹک مرکز، فضائی دفاعی نظام اور ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کے مقامات شامل تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)

حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملوں کا مقصد غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو روکنا ہے۔ لیکن ان کے اہداف کا اسرائیل سے بہت کم یا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو یورپ سے ملانے والے ایک اہم تجارتی راستے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی بدھ کو ایک قرارداد منظور کی جس میں حوثیوں سے فوری طور پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا اور اسے ہتھیار فراہم کرنے والے ملک ایران کی واضح طور پر مذمت کی گئی۔
یہ قراردار 11 ووٹوں سے منظور ہوئی جبکہ روس، چین، الجزائر اور موزمبیق ووٹنگ کے دوران غیرحاضر رہے۔

شیئر: