Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے اقلیتی ووٹرز کن حلقوں میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں؟

پاکستان میں کئی ایسے حلقے موجود ہیں جہاں اقلیتی برادری کسی بھی نمائندے کے انتخاب میں اکثریتی آبادی جتنی طاقت رکھتی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
دسمبر 2022 میں نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک بین المذاہب سیشن کے دوران پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے اعداد و شمار بتائے تھے۔
یہ غالباً آخری موقع تھا جب مذہبی اقلیتوں سے متعلق اعداد و شمار سامنے لائے گئے کیونکہ اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان یا نادرا کی جانب سے باضابطہ طور پر اقلیتوں کے اعداد و شمار کے بارے میں کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔
نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے اُس وقت اقلیتوں کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’نادرا نے دسمبر 2022 تک 44 لاکھ اقلیتوں کو رجسٹر کیا ہے جن میں ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 2018 میں 36 لاکھ سے زیادہ تھی یعنی چار برسوں میں 10 لاکھ سے زیادہ غیر مسلم رجسٹر ہوئے۔ 
جون 2022 میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 تک پہنچ چکی تھی۔
ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 جبکہ مسیحی ووٹرز کی تعداد 17 لاکھ 3ہزار288 تھی۔
اِن اعداد و شمار کے علاوہ 2023 میں کی گئی مردم شماری میں اقلیتوں سے متعلق ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں جبکہ حالیہ انتخابات میں بھی مخلوط انتخابی طریقہ کار کے باعث اقلیتوں کے لیے جداگانہ ووٹر لسٹ جاری نہیں کی گئی۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے سربراہ پیٹر جیکب نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’2022 کے بعد کئی نئے ووٹرز رجسٹر ہوئے مگر اس حوالے سے جداگانہ ڈیٹا جاری نہیں کیا گیا۔‘
’الیکشن کمیشن نے یہ عذر پیش کیا کہ اس بار احمدیوں کے علاوہ باقی تمام لوگ ایک ہی فہرست میں شامل ہیں اس لیے اُن کو الگ کرنے میں وقت لگتا ہے جو فی الحال ممکن نہیں۔‘
تاہم اس کے باوجود پاکستان میں کئی ایسے حلقے موجود ہیں جہاں اقلیتی برادری کسی بھی نمائندے کے انتخاب میں اکثریتی آبادی جتنی طاقت رکھتی ہے۔

وہ حلقے جہاں اقلیت اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں

سینیئر صحافی و تجزیہ کار محسن علی ترک گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے اقلیتوں کی بیٹ کوور کرتے آ رہے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں مذہب کے اعتبار سے آبادی کے اعداد و شمار میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ ہماری حکومتیں خاموش رہتی ہیں اور اقلیتوں کی اصل تعداد کے بارے میں معلومات پوشیدہ رکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حسن علی ترک  نے کہا کہ ’اس وقت پاکستان میں مسلمانوں کے بعد زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی سندھ میں زیادہ ہے جبکہ وہ پنجاب میں بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اسی طرح مسیحی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی ہیں جو کسی عقیدے کے پیروکار نہیں، یوں اگر اِن سب کو غیر مسلم تصور کر لیا جائے تو یہ ایک خاصی بڑی تعداد بن جاتی ہے اور ان کی انتخابات میں اہمیت سے انکار ممکن نہیں رہتا۔‘

لاہور کے چند حلقے اقلیتی برادری کے ووٹ کی بدولت زیر بحث آتے رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 لاہور سمیت سندھ اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں اب بھی کئی حلقوں میں اقلیتوں کے ووٹ ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے رواداری تحریک کے چیئرمین سیمسن سلامت نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں لگ بھگ 22 حلقے ایسے ہیں جہاں پر اقلیتی ووٹرز کی تعداد اتنی ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی جیت یا ہار میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
تاہم پیٹر جیکب بتاتے ہیں کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے 30 سے 35 حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتی ووٹ زیادہ ہے۔
ان کے بقول یہ ووٹ کہیں زیادہ تو کہیں کم ہیں لیکن ان کا کردار فیصلہ کن ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کے ساٹھ سے زیادہ حلقوں میں اقلیتی برادری کا کردار اہم ہے۔
سیمسن سلامت کے بتاتے ہیں ’سندھ میں ضلع تھرپارکر اور امر کوٹ جبکہ پنجاب میں لاہور، گوجرنوالہ، فیصل آباد، شیخوپورہ اور راولپنڈی کے کئی حلقوں میں اقلیتی ووٹرز بڑی تعداد موجود ہیں۔‘
اسی طرح لاہور کے چند حلقے اقلیتی برادری کے ووٹ کی بدولت زیر بحث آتے رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں این اے 127 توجہ کا مرکز ہے جہاں مسلم لیگ ن کے عطااللہ تارڑ اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے باقاعدہ اقلیتی برادری سے ملاقات بھی کی اور انتخابات میں اُن کی سپورٹ کا مطالبہ بھی کیا۔

سیمسن سلامت کے مطابق اقلیتی برادری ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے مسائل درست طریقے سے نہیں بتا پاتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیٹر جیکب بتاتے ہیں کہ  ’لاہور پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں پاکستان کی اقلیتی برادری کا آٹھ فی صد بستے ہیں۔‘
ان کے بقول ’ان میں اکثریت مسیحی برادری کی ہے۔ 1998 کی مردم شماری میں لاہور وہ شہر تھا جہاں سب سے زیادہ اقلیتی برادری آباد تھی۔ شاد باغ اور شاہدرہ کے حلقوں میں بھی اقلیتی برادری کی خاصی تعداد موجود ہے۔ لاہور میں این اے 127 اور این اے129  میں تقریباً نصف ووٹ اقلیتوں کے ہیں۔‘
’اِن حلقوں میں اقلیتوں کے ووٹرز کی تعداد کہیں 40 ہزار تو کہیں 45 ہزار ہے۔‘
سیمسن سلامت اس حوالے سے پیٹر جیکب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، لاہور کا حلقہ این اے 127 جہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، حلقہ پی پی 159  جہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف اور حلقہ این اے 117 جہاں سے استحکام پاکستان پارٹی کے مرکزی صدر علیم خان انتخاب لڑ رہے ہیں، ان حلقوں میں اقلیتوں کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہے۔

اقلیتی برادری کے مطالبات

اس وقت ملک بھر میں مخلوط طریقے پر انتخابات منعقد ہو رہے ہیں تاہم اقلیتی برادری اب بھی سیاسی نمائندوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھ رہی ہے۔
سیمسن سلامت کے مطابق اقلیتی برادری ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے مسائل درست طریقے سے نہیں بتا پاتی۔
ان کے مطابق ’عمومی طور پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ڈر، خوف اور احساس محرومی اور عدم تحفظ کی وجہ سے صحیح معنوں میں اپنے حقیقی مسائل سے متعلق بات کرنے سے گھبراتے اور ڈرتے ہیں۔ تاہم انتخابات کے دنوں میں گلیوں، نالیوں، سڑکوں اور دیگر ترقیاتی مسائل پر ہی بات ہوتی ہے۔‘
تاہم پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ ’انہوں نے اقلیتی فورم پاکستان اور ادارہ برائے سماجی انصاف کے تحت پانچ نکاتی مطالبات رکھے ہیں۔ ہماری عموماً ان پانچ مطالبات پر ہی سیاسی نمائندوں سے بات ہوتی ہے۔ ان پانچ مطالبات میں  کم عمری کی شادی، جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام، 19 جون 2014 کو جاری کردہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد، دستور پاکستان کے آرٹیکل 22 الف کی روح سے مذہبی تعلیم کو لازمی مضامین سے الگ کرنا، اقلیتوں کے حقوق کے لیے کمیشن کا قیام اور قائداعظم کی 11 اگست 1947 کے خطاب کو نصاب اور دستور پاکستان میں شامل کرنا اقلیتی برادری کے اہم ترین مطالبات ہیں۔‘

سیمسن سلامت کے مطابق اقلیتی برادری ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے مسائل درست طریقے سے نہیں بتا پاتی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی جماعتیں اس وقت بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اس دوران سیاسی رہنما مختلف علاقوں میں جا کر اقلیتی برادری کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں۔
محسن علی ترک بتاتے ہیں کہ ’اقلیتی برادری کے اکثر لوگ پڑھے لکھے ہیں جو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اقلیتوں کے ووٹرز کو باہر لے کر آتی ہے۔ اب تک تو مشاہدے میں آیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت مسلم لیگ ن اقلیتوں کے حوالے سے اچھا کام کر رہی ہیں جبکہ نئی وجود میں آنے والی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی بھی اس حوالے سے بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
محسن علی ترک نے مزید کہا کہ ’اقلیتوں کو سب سے پہلے درست اعداد و شمار سے متعلق مطالبہ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے،  اقلیتی برادری کی آبادی جمود کا شکار تو نہیں ہے۔ جتنے بچے مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں اُسی طرح ہندو اور مسیحی گھرانوں میں بھی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے حوالے سے درست اعداد و شمار معلوم کر کے انہیں سینیٹ سمیت قومی و صوبائی اسمبلی میں ضروری نمائندگی دی جائے۔‘

شیئر: