Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا تحریک انصاف کی خواتین امیدوار گیم چینجر ثابت ہوں گی؟ عامر خاکوانی کا کالم

بہاولپورتین حلقہ این اے 166 سے کنول شوزب الیکشن لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو: ایکس پی ٹی آئی)
پاکستانی سیاست میں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی نے اس وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔
ان غیر جماعتی انتخابات میں مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیاستدانوں کی ایک نئی فصل سامنے آئی۔
 بہت سے نئے چہرے سامنے آئے جو اپنے پیسے، برادری اور تعلقات کی بنیاد پر اسمبلی میں پہنچے۔
سیاسی کلچر کمزور ہوا اور برادری ازم کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے۔ ایسے بہت سے لوگ منتخب ہوئے جو بعد میں الیکٹ ایبل بن گئے اور 88، 90، 93 میں ہونے والے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتیں انہیں لینے پر مجبور ہو گئیں۔
غیر جماعتی انتخابات کرانا زیادتی اور سیاسی ظلم تھا، مگر اس نے پاکستانی سیاست میں بہت کچھ نیا بھی شامل کر دیا۔ اگر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوتا تو میاں نواز شریف کبھی وزیراعلیٰ پنجاب نہ بن پاتے۔ گجرات کے چودھری، شیخ رشید، چودھری نثار،جاوید ہاشمی اور بہت سے آج کے نامور سیاستدان شاید اس قدرنمایاں نہ ہوتے۔ 

 کیا الیکشن 2024 بھی بعض حوالوں سے گیم چینجر ثابت ہوگا؟ 

 تحریک انصاف پر دباﺅ اور کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں اس پارٹی کے کچھ نمایاں لیڈر چھوڑ گئے، بہت سے ادھر اُدھر ہوئے اور کئی اسیر ہونے کی وجہ سے الیکشن سے باہر ہوئے۔
یہ سب سیاسی کلچر اور جمہوری روایات کے لئے تباہ کن اور نقصان دہ ہے۔ 
 انگریزی محاورے کے مطابق شر میں سے خیر یہ برآمد ہوا ہے کہ متعدد حلقوں سے پڑھی لکھی خواتین اور پروفیشنل وکلا کو الیکشن لڑنے کا موقعہ ملا ہے۔ پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خواتین امیدوار اور معروف وکلا کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان  میں سے کچھ الیکشن جیت سکتے ہیں۔ جو ہار جائیں گے انہیں بھی عملی سیاست کا زبردست تجربہ ضرور حاصل ہوگا۔

 تحریک انصاف پر دباﺅ اور کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں اس پارٹی کے کچھ نمایاں لیڈر چھوڑ گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 ایسے کئی لوگ ہیں جنہیں عام حالات میں کبھی ٹکٹ نہ ملتا یا وہ بھی ٹکٹ کا تصور نہ کرتے۔ اس وقت وہ ملک کی دو سب سے بڑی جماعتوں میں سے ایک کی طرف سے قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
مثال کے طور پر بیرسٹر سلمان اکرم راجہ ملک کے چوٹی کے وکیلوں میں سے ایک ہیں۔ سنجیدہ، متین سلمان اکرم راجہ ٹی وی ٹاک شوز میں عمدگی سے ٹو دا پوائنٹ گفتگو کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔
 سلمان اکرم راجہ کا کوئی سیاسی کیرئر نہیں، وہ غالباً بارکونسلوں کے الیکشن بھی نہیں لڑتے رہے۔
آج وہ لاہور کے ایک بہت اہم حلقہ میں تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کا خاصا بڑا ووٹ بینک ہے اور یہاں سے ماضی میں دو بار شفقت محمود جیت چکے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ یہ سیٹ جیت سکتے ہیں۔ لاہور ہی سے ایک اور سینیئر قانون دان سردار لطیف کھوسہ بھی خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لطیف کھوسہ طویل عرصے سے سیاست میں ہیں، مگر وہ جنرل الیکشن کے بجائے سینیٹر بننے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس بار وہ سعد رفیق جیسے تجربہ کار سیاستدان کے مقابلے میں لڑ رہے ہیں۔
مختلف اضلاع سے بہت سے وکلا کو ٹکٹ دیا گیا۔ عمران خان کے اکثر وکلا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ شعیب شاہین اسلام آباد سے جبکہ شیر افضل مروت لکی مروت سے امیدوار ہیں۔ نعیم پنجوتھہ سرگودھا سے جبکہ عمیر نیازی میانوالی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
حامد خان نے دلچسپی نہیں لی، ورنہ انہیں بھی لازمی ٹکٹ مل جاتا۔ 

جنوبی پنجاب کے کئی پسماندہ علاقوں کے دیہی حلقوں سے بھی تحریک انصاف نے کئی خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

 خواتین کا معاملہ زیادہ دلچسپ اور اہم ہے۔ جنوبی پنجاب کے کئی پسماندہ علاقوں کے دیہی حلقوں سے بھی تحریک انصاف نے کئی خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں سے بعض تو ورکر خواتین ہیں۔
چند سال پہلے زرتاج گل وزیر ڈیرہ غازی خان سے الیکشن لڑ کر مشہور ہوئی تھیں۔ ایک بار وہ ہار گئیں، پچھلی بار انہوں نے لغاری خاندان کو شکست دے کر ڈی جی خان سے نشست جیتی، وزیر بنیں۔ اس بار بھی وہ ڈیرہ غازی خان سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 
 احمد پورشرقیہ، بہاولپورتین، حلقہ این اے 166 سے کنول شوزب الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پچھلی بار انہیں مخصوص نشستوں پر ایم این اے بنایا گیا تھا۔ اس بار وہ سابق ایم این اے مخدوم سمیع الحسن گیلانی کے مقابلے میں لڑ رہی ہیں جو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر منحرف ہوگئے تھے۔ ملتان سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو قریشی ملتان کے حلقہ این اے 151سے لڑ رہی ہیں۔ مقابلے میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی پی پی پی سے جبکہ ن لیگ سے عبدالغفار ڈوگر لڑ رہے ہیں۔ 
 ضلع وہاڑی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایک سے زائد خواتین امیدوار ہیں۔ بورے والا، وہاڑی این اے 156 سے عائشہ نذیر جٹ الیکشن کی امیدوار ہیں۔عائشہ نذیر تحریک انصاف جنوبی پنجاب خواتین ونگ کی سربراہ بھی رہی ہیں۔
عائشہ نذیر نے پچھلی بار آزاد الیکشن لڑا تھا اور ہار گئی تھیں۔ اسی قومی اسمبلی کی سیٹ کے نیچے گگومنڈی سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر عائشہ نذیر کی بہن ڈاکٹر عارفہ نذیر جٹ بھی صوبائی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ وہاڑی کے ایک اور حلقہ این اے 157 سے سبین صفدر بندیشہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یہ سیاست میں زیادہ فعال نہیں تھیں، ان کے خاوند اعجاز سلطان بندیشہ پچھلی بار رکن صوبائی اسمبلی تھے، اس بار ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔ 
 لودھراں کے حلقہ این اے 155 میں بہت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ وہاں سے جہانگیر ترین الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے پیر اقبال شاہ کو ٹکٹ دیا۔ یہ وہی پیر اقبال شاہ ہیں جنہوں نے اسی حلقہ سے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو الیکشن میں ہرایا تھا جب جہانگیر ترین نااہل ہوئے اور ان کی خالی کردہ سیٹ پر ان کے بیٹے نے الیکشن لڑا تھا۔ 
 چند دن پہلے پیر اقبال شاہ الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔ اس کی وہی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے سیٹ خالی چھوڑنے کے بجائے اپنی ایک پرجوش نوجوان ورکر خاتون عفت سومرو ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ عفت سومرو لودھراں سے لا ہور آ کر زمان پارک میں انصافین کارکنوں کے ساتھ ایکٹو رہیں اور عمران خان کی گرفتاری میں مزاحم ہوتی تھیں۔

 ضلع وہاڑی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایک سے زائد خواتین امیدوار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وہ گرفتار شدہ انصافین کارکنوں کی ضمانتیں بھی کراتی رہیں۔ اب انہیں اچانک قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل گیا۔
ایک دیہی حلقے سے جہاں جہانگیر ترین جیسے بادشاہ گر کے سامنے عفت سومرو کے لیے الیکشن جیتنا شائد مشکل ہو، مگر یہ تجربہ اس نوجوان خاتون وکیل کے لیے رہنما ثابت ہوسکتا ہے۔
 پتوکی، قصور سے بھی تحریک انصاف کی ایک ورکر خاتون سدرہ فیصل کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا ہے۔ وہ این اے 134 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یہ مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ ہے اور یہاں سے ن لیگی تجربہ کار امیدوار رانا حیات خان امیدوار ہیں۔ نتیجے سے قطع نظر سدرہ فیصل کے لیے یہ سیاسی تجربہ بڑا اہم ہوگا۔ 
 پشاور کے ایک اہم حلقہ این اے 30 سے تحریک انصاف کی معروف خاتون رہنما شاندانہ گلزار امیدوار ہیں۔ شاندانہ گلزار پہلے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بنی تھیں۔ ان کے والد خیبر پختون خوا کے معروف بیوروکریٹ رہے ہیں۔
شاندانہ گلزارمضبوط امیدوار ہیں اور پشاور سے ایم این اے بن سکتی ہیں۔ 
 لاہور سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں پر تحریک انصاف کی خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں، دونوں ن لیگ کی اہم شخصیات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ دونوں اس وقت جیل میں ہیں اور کمپین نہیں کر پا رہیں۔
این اے 118 سے حمزہ شہباز شریف کے مقابلے میں عالیہ حمزہ جبکہ این اے 130 سے میاں نواز شریف کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد امیدوار ہیں۔ یاسمین راشد پہلے بھی اس حلقے سے دو بار الیکشن لڑ چکی ہیں۔ 
 راول پنڈی سے تحریک انصاف نے دو خواتین کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے۔ این اے 57 پنڈی چھ سے سیمابیہ طاہر امیدوار ہیں۔ یہ تحریک انصاف شمالی پنجاب خواتین کی صدر اور بہت فعال سیاسی کارکن ہیں۔ جب کہ این اے 54راولپنڈی تین سے عذرا مسعود امیدوار ہیں۔ 
 تحریک انصاف کی ٹکٹوں پر بعض سیاسی گھرانوں کی خواتین کو مجبوراً بھی الیکشن لڑنا پڑ رہا ہے۔ جیسے گجرات سے چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الٰہی کو این اے 64 گجرات سے تحریک انصاف نے امیدوار بنایا کیونکہ ان کے خاوند پرویز الٰہی اور بیٹے مونس الٰہی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔ قیصرہ الٰہی صاحبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ رہی ہیں جبکہ ان کی ہمشیرہ اور چودھری شجاعت حسین کی بہن سمیرہ الٰہی چوہان بھی صوبائی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ 

پی ٹی آئی کے مشکلات کی وجہ سے متعدد حلقوں سے پڑھی لکھی خواتین اور پروفیشنل وکلا کو الیکشن لڑنے کا موقعہ ملا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 سیالکوٹ سے عثمان ڈار، عمرڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار حلقہ این اے 71 سے خواجہ آصف کے مقابلے میں لڑ رہی ہیں۔ ریحانہ ڈار دبنگ خاتون ہیں اور انہوں نے خواجہ آصف کے لیے خاصی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ 
 منڈی بہاﺅالدین سے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کی اہلیہ کوثر پروین بھی این اے 69 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس حلقے میں بھٹی ووٹ خاصا بڑا ہے اور کوثر پروین مضبوط امیدوار ہیں۔
تحریک انصاف نے منڈی بہاﺅالدین ہی سے بسمہ ریاض کو ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے پر امیدوار بنایا ہے۔ 
 گوجرانوالہ کے ایک حلقے سے راشدہ طارق تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار قومی اسمبلی ہیں۔ این اے 67 حافظ آباد سے معروف بھٹی خاندان کی جانب سے مہدی حسن بھٹی کی صاحبزادی انیقہ بھٹی قومی اسمبلی کی امیدوار بنی ہیں کیونکہ ان کے والد اور کئی دیگر عزیزوں کے کاغذات مسترد ہوگئے۔
 اٹک کے ایک حلقے سے میجر ریٹائر طاہر اقبال ایم این اے کے امیدوار ہیں تو دوسرے حلقے سے ان کی صاحبزادی ایمان طاہر امیدوار ہیں۔ لیہ سے مجید نیازی پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی تھے، اب وہ روپوش ہیں جبکہ ان کی اہلیہ عمبر مجید نیازی این اے 181 لیہ سے امیدوار ہیں۔  
 اندرون سندھ سے بھی تحریک انصاف نے کئی خواتین کو قومی اسمبلی کا امیدوار بنایا ہے۔ دادو کے حلقہ این اے 227 سے شبانہ نواب امیدوار ہیں۔
این اے 209 سانگھڑ سے حمیدہ شاہ اور این اے 215 تھرپارکر سے مہرالنسا بلوچ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ این اے 217 ٹنڈوالٰہ یار سے روزینہ بھٹو کو امیدوار بنایا گیا۔ این اے 202 خیر پور ایک سے عنبرین ملک اپنی قسمت آزمائی کریں گی۔ 

 لودھراں کے حلقہ این اے 155 سے عفت سومروں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

 پنجاب سے صوبائی اسمبلی کے لیے بھی کئی خواتین تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں حصہ لیں گی۔ جہلم سے رفعت زیدی جبکہ گجرات پی پی 29 سے عافیہ نورین لڑ رہی ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ پی پی 123 سے ریاض فتیانہ کی اہلیہ آشفہ ریاض لڑیں گی۔ پی پی 124سے سونیا بی بی امیدوار ہیں۔ لاہور کے حلقہ پی پی 160 سے انعم نیازی الیکشن لڑیں گی۔
قصور سے مسز مذمل بھٹی کو ٹکٹ دیا گیا۔ بہاولنگر پی پی 244 سے ثریا سلطانہ اور پی پی 246 بہاولپور سے فرزانہ خلیل باجوہ کو تحریک انصاف نے الیکشن کے لیے منتخب کیا۔ 
 لودھراں سے سابق ایم این اے نواب حیات اللہ خان ترین کی بیوہ شازیہ حیات اللہ ترین صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ رحیم یار خان پی پی 260 سے صائمہ طارق کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہ بہت ایکٹو پولیٹیکل ورکر ہیں اور زمان پارک کے باہر انصافین کارکنوں میں بہت نمایاں تھیں۔ مظفر گڑھ کے ایک حلقے سے آمنہ شمسی جبکہ کوٹ ادو سے نادیہ کھر کو بھی تحریک انصاف نے امیدوار بنایا۔ 
 جیسا کہ اوپر لکھا کہ ان میں سے کچھ تو سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، مگر اچھی خاصی تعداد ایسی پڑھی لکھی ورکر خواتین کی ہیں جنہیں کبھی کسی بڑی سیاسی جماعت سے جنرل الیکشن میں ٹکٹ کی توقع نہیں تھی۔ بدلتے سیاسی حالات میں وہ امیدوار بنی ہیں، کیا عجب کہ میدان مار کر اسمبلی میں پہنچ جائیں۔ ہار جائیں تب بھی ہماری روایتی سیاست میں ایک نیا رنگ تو شامل ہوا ہے۔ ممکن ہے آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس نئے ٹرینڈ کو فالو کریں۔

شیئر: