Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پائپ پالیٹکس: ’پلاسٹک کا پائپ الیکشن جیتنے کی ضمانت‘

خیبر پختونخواہ کے دور دراز ضلع شانگلہ میں روایت رہی ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی ٹرک بھر بھر کے پائپ کے بنڈلز لائے جاتے ہیں۔
یہ پائپ پانی کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
پشتو زبان میں پائپ کو ’پَیپ‘ کہتے ہیں۔ یہ پائپ مقامی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدان مختلف گاڑیوں، ٹرکوں اور سوزوکی گاڑیوں میں لاتے ہیں۔ سیاستدان اپنے حلقے میں لوگوں سے ووٹ مانگنے کے لیے یہ پائپ دیتے ہیں۔
بعض اوقات اونچے پہاڑوں پر بسنے والے لوگ آبادی والے علاقوں کی طرف آتے ہیں اور اِن سیاستدانوں سے پائپ کا مطالبہ کر کے بدلے میں انہیں ووٹ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔
اس سیاسی روایت کی وجہ سے پانی کے اس پائپ کو پشتو میں ’سیاسی پَیپ‘ کہا جاتا ہے. مقامی لوگوں کے مطابق انہیں نہیں معلوم کہ یہ روایت کب اور کس طرح شروع ہوئی لیکن ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فضل سبحان افغان کے مطابق یہ ایک ’سیاسی ٹریپ‘ ہے جس کے ذریعے سیاستدان با آسانی ’ووٹ کی خریداری‘ کرتے ہیں۔
شانگلہ کو 1995 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا جہاں قومی اسمبلی کی ایک جب کہ تین صوبائی اسمبلی کے حلقے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں یہاں دو صوبائی حلقے تھے۔
یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کا آبائی حلقہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حلقے پر پاکستان مسلم لیگ ن مضبوط رہی ہے تاہم صوبائی حلقوں پر یہاں پاکستان تحریک انصاف کی برتری رہی ہے۔
حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے تین صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے لئے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست پر امیر مقام خود جبکہ پی کے 30 پر ان کے بھائی اور سابق ایم این اے ڈاکٹر عباد اللہ خان الیکشن لڑ رہے ہیں۔

شانگلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کا آبائی حلقہ ہے۔

پی کے 28 سے پی ٹی آئی کے شوکت یوسفزئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے رشاد خان الیکشن لڑ رہے ہیں تاہم مسلم لیگ نے پی کے 29 پر جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔
ان دو جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے امیدوار بھی سیاسی اکھاڑے میں موجود ہیں۔
اس وقت یہاں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی مہم جاری ہے لیکن گذشتہ کئی دنوں سے ضلع بھر میں ’پائپ پالیٹکس‘ کے چرچے ہیں۔
ان دنوں سوات اور دیگر علاقوں سے گاڑیوں پر پائپ لاد کر ضلع کے مختلف دور دراز علاقوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ جب سڑک پر پائپ سے لدی گاڑی گزرتی ہے تو لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ فلاں سیاستدان کی گاڑی ہے جو فلاں جگہ جا رہی ہے۔
یہ گاڑیاں دیکھنے کے بعد مقامی لوگ انتخابی میدان میں موجود سیاستدانوں کی کامیابی اور ناکامی کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ اس ضلع میں تاثر پایا جاتا ہے کہ جس سیاستدان کی طرف سے زیادہ پائپ کی گاڑیاں آرہی ہوں وہی فتح یاب ہوسکتا ہے۔
مقامی صحافی سہیل حسن نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اِن دنوں شانگلہ کے ہر روڈ پر پائپ سے بھری گاڑیاں دیکھی جا رہی ہیں۔

شانگلہ کےعلاقوں میں یہ ’سیاسی پائپ‘ گزشتہ کئی برس سے لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ 

’ہم جہاں بھی کوریج کرنے جاتے ہیں، سیاستدان کے ساتھ ہوں یا  حلقے میں، ہر جگہ پائپ کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے. اکثر امیدواروں کے پاس مقامی لوگ عرضی لے کر آتے ہیں کہ انہیں پائپ دیا جائے۔ اب تو یہ ایک ٹیبو سا بن گیا ہے جس کی وجہ سے ذیادہ تر گاڑیاں رات کے آخری پہر علاقے میں پہنچتی ہیں تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے۔‘
ضلع شانگلہ قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں کی صاف شفاف ندیاں اور دریا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ذیلی علاقوں میں پانی کی کوئی کمی نہیں تاہم بالائی علاقوں تک پانی پہنچانا گذشتہ کئی برس سے ممکن نہیں ہو پا رہا۔
سماجی کارکن فضل سبحان افغان ’پائپ پالیٹکس‘ کی ایک وجہ بالائی علاقوں میں پانی کی ترسیل نہ ہونا بتاتے ہیں۔ سبحان افغان نے اردو نیوز کو بتایا ’شانگلہ کے اکثر بالائی اور کچھ میدانی علاقوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہے اور یہ وہ آبادیاں ہیں جن کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے. یہ لوگ سیاستدانوں سے پائپ حاصل کرکے اپنی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہیں کیونکہ یہاں کی خواتین اپنے گھروں سے تین یا چار کلو میٹر دور پیدل سفر کر کے پانی لاتی ہیں، اگر اِن کو وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود پائپ مل رہا ہے تو یہ لوگ ایک مصنوعی عذاب سے بچ رہے ہیں‘
شانگلہ کے اِن علاقوں میں یہ ’سیاسی پائپ‘ گزشتہ کئی برس سے لوگوں کو دیا جا رہا ہے جبکہ آج تک لوگوں کی ضروریات پوری نہیں ہوئیں۔
اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں ’یہ پائپ کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ سیاستدان مجموعی واٹر سکیم کے لئے تگ و دو نہیں کرتے اس لئے انفرادی طور پر ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پائپ حاصل کر لے۔‘
ان کے مطابق شانگلہ میں تقریباً 80 فیصد گھرانوں کو پانی نہیں پہنچ رہا۔ ’جب پانی کی تقسیم اور ترسیل کا کوئی نظام موجود نہیں تو لوگ انفرادی طور پر اپنے لئے انتظام کرتے ہیں اور اس کے لئے یہ پائپ کسی غنیمت سے کم نہیں۔‘
انجینئر مسعود خان امیر مقام کے رشتہ دار ہیں اور بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے نامزد امیدوار بھی رہے ہیں۔ وہ گزشتہ بدلیاتی انتخابات میں ناظم اعلیٰ کے فوکل پرسن تھے اور اب تک چار الیکشنز میں حصہ لے چکے ہیں۔
ان دنوں وہ امیر مقام کے انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ لوگوں کو پائپ دینا سیاسی نمائندوں کی منشا نہیں بلکہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔ ’جب سے انتخابی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں، لوگ ہمارے پاس بار بار آتے ہیں لیکن ہم انہیں اپنی طرف سے سکیم کی پیشکش کرتے ہیں تاہم وہ اپنے مطالبے پر بضد ہوتے ہیں. یہاں تقریباً 70 فیصد ایسے لوگ ہیں جن کا سڑکوں، بجلی اور نظریہ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ وہ یا تو پلاسٹک پائپ یا پھر پانی کی ٹینکی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
شانگلہ میں اس وقت دو قسم کے پائپس لوگوں میں بانٹے جا رہے ہیں. ایک کالے رنگ کا پلاسٹک پائپ ہوتا ہے جو زمین پر بچھانے اور سورج کی شعائیں پڑنے کی وجہ سے جلدی کمزور پڑ جاتا ہے جبکہ ایک لوہے والا پائپ ہوتا ہے

سماجی کارکن فضل سبحان افغان ’پائپ پالیٹکس‘ کی ایک وجہ بالائی علاقوں میں پانی کی ترسیل نہ ہونا بتاتے ہیں۔

انجینئر مسعود خان کے بقول ’ہم خود لوگوں کو بتاتے ہیں کہ  آپ گھر کے قریب چشمے کا انتخاب کریں، ہم پیشہ ور لوگوں کو بلا کر لوہے والا پائپ لگا دیں گے لیکن لوگ پلاسٹک پائپ کے لیے ہی اصرار کرتے ہیں۔‘
یہاں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے قریب بہنے والے چشمے سے اپنے گھر تک پانی پہنچائے۔
 تاہم یہ پائپ اگلے انتخابات سے قبل ہی جگہ جگہ سے کمزور پڑ جاتا ہے۔
وحید عالم (فرضی نام) کے بقول ’سیاستدانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو کمزور ترین پائپ دے دیا جائے کیونکہ معیاری پائپ مہنگا ملتا ہے جبکہ سیاستدانوں کو صرف کوٹہ پورا کرنا ہوتا ہے۔‘
اس پائپ کے حصول کے لیے بھی سیاسی نمائندوں اور امیدواروں نے ایک طریق کار وضع کر رکھا ہے۔
وحید عالم (فرضی نام) بھی اس علاقے میں ایک بڑے سیاسی گھرانے سے وابستہ ہیں۔ وہ خود سابق ناظم اعلیٰ اور ایم این اے کے قریبی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے پائپ کے حصول کا طریق کار مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے تاکہ یہ روایت ختم ہو سکے۔
’یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی نمائندہ پائپ کی بجائے نقد پیسے دے کر ووٹ خریدنے کو ترجیح دیتا ہے لیکن یہاں کے لوگ پائپ پر ہی مصر ہوتے ہیں۔ پائپ کے حصول کو مشکل بنانے کے لئے ہم نے اس کا طریق کار تبدیل کیا ہوا ہے. پہلے یہ لوگ سوات میں اپنا اندراج کرتے ہیں ہھر انہیں ایک رسید دی جاتی ہے جس میں مطلوبہ پائپ کی لمبائی سمیت دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ اس رسید پر ہمارے دستخط کا ہونا بھی ضروری کر دیا ہے۔ اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پائپ معیاری نہ ہو تاکہ لوگ مزید مطالبہ نہ کرے۔‘
ان کے مطابق یہ رسید دکاندار کو دکھائی جاتی ہے اور وہاں سے مطلوبہ پائپ کا بنڈل حاصل کر کے لایا جاتا ہے۔

فضل سبحان افغان کے مطابق ایک وقت میں شانگلہ میں آٹے کے تھیلے پر بھی ووٹ دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔

شانگلہ کے دور دراز علاقوں میں تو یہ پائپ مقامی دکانداروں سے حاصل کی جاتی ہے جن کے ساتھ سیاسی نمائندوں نے معاہدہ کیا ہوتا ہے تاہم جب بڑے پیمانے پر پائپ درکار ہو تو پھر فیکٹری مالکان کے ساتھ مستقل لین دین رکھا جاتا ہے۔
انجینئیر مسعود خان کے بقول ’ہم نے سوات، پشاور، مانسہرہ اور اسلام آباد سمیت کئی دیگر علاقوں میں فیکٹری مالکان سے بات کی ہوتی ہے۔ وہ ہمارے لئے لاکھوں فُٹ پائپ تیار کرتے ہیں۔ یا پائپ کے ڈیلرز بھی اس میں مفید ثابت ہوتے ہیں جس کے لئے ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی‘
 ان کے مطابق آج کل لوگ سیاستدانوں سے پائپ سمیت سمینٹ کی بوریاں بھی لے رہے ہیں۔
فضل سبحان افغان کے مطابق ایک وقت میں یہاں آٹے کے تھیلے پر بھی ووٹ دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔
سہیل حسن کے مطابق حالیہ انتخابات میں مختلف علاقوں سے ووٹس کے لیے پائپوں کے بجائے دوسری چیزوں کا مطالبہ ہونے لگا ہے۔
’اب تو لوگوں کے مطالبات بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ خبریں آرہی ہیں کہ ایک سیاستدان تو مقامی لوگوں سے ووٹ لینے کے لئے سولر پینلز بھی دے رہے ہیں۔‘

شیئر: