Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کس خفیہ سکرپٹ کو کامیابی ملے گی؟ عامر خاکوانی کا کالم

عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ کیسز میں سزا سنائی جا چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پیر کی شام ایک دوست کے ہاں کھانا تھا۔ ہمارے یہ دوست سالانہ فش پارٹی کرتے ہیں جس میں کینجھر جھیل کی ایک خاص قسم کی تلی مچھلی پیش کی جاتی ہے۔ اس کی ریسیپی خاص ہے، تلنے سے پہلے کئی قسم کے مسالہ جات سے مچھلی کو میرینیٹ کر کے گھنٹوں رکھا جاتا ہے۔ پودینے کی ہری چٹنی اور تیز قسم کے مسالہ کے استعمال نے لذت سہ آتشہ کر دی، وافر مقدار میں مچھلی سے آتش شکم مٹانے کے بعد شرقپور کے گلاب جامن اور پھر سنہری رنگت والے خوش رنگ قہوہ سے سیوا کی گئی۔
 اس محفل میں کئی صحافی دوست بھی شامل تھے۔ تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے، ن لیگ کے پرجوش حمایتی، جماعت اسلامی سے محبت کرنے والے جبکہ پی پی کے ایک سابق جیالے بھی شریک تھے۔جب آٹھ دس صحافی ایک جگہ موجود ہوں تو سیاست پر گفتگو لازمی ہے ۔ مختلف حلقوں کے حوالے سے بھی گپ شپ ہوتی رہی۔ کسی نے اوکاڑہ کی رپورٹ دی تو کوئی گجرات، گوجرانوالہ کے قصے سنا رہا تھا۔ ہم نے ساہی وال، وہاڑی اور مظفر گڑھ کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی۔ کراچی کا ذکر بھی آیا، حافظ نعیم کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ بھی کہ ایم کیو ایم کا کیا بنے گا، وہاں پی ٹی آئی کے ہاتھ اس بار کیا آنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
 لاہور کے حلقے بھی زیربحث آئے۔ ن لیگ کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والے سینیئر صحافی نے انکشاف کیا کہ خواجہ سعد رفیق اپنی سیٹ ہار رہے ہیں۔انہوں نے البتہ شہباز شریف، مریم نواز ، حمزہ کی کامیابی کی نوید سنائی اور کہا کہ بڑے میاں صاحب بھی جیتیں گے مگر مقابلے کے بعد۔ ان دوست سے اجازت نہیں لی، ورنہ اگر نام ظاہر کروں تو خواجہ سعد رفیق غش کھا جائیں۔
خواجہ صاحب کی کمزور پوزیشن کی وجہ بھی بتائی گئی کہ ڈیفنس کے اس حلقے کا خاصا حصہ کچی آبادیوں پر مشتمل تھا۔ ڈیفنس سے تحریک انصاف کو ووٹ ملتا جبکہ خواجہ سعد دیہی علاقوں سے جیت جاتے۔ اس بار حلقہ بندی ایسی ہوئی کہ وہ تمام دیہاتی علاقے کٹ کر اس حلقے میں چلے گئے جہاں اب ایاز صادق لڑ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے خواجہ صاحب پریشان ہیں۔ شرکا محفل نے ازراہ مروت بلاول کی مہم کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس پر سب نے صاد کیا کہ بھٹو خاندان کے وارث کا لاہور سے لڑنا خوش آئند ہے۔گفتگو میں میاں اظہر کی گرفتاری کے بعد ان کی پزیرائی بڑھ جانے کا انکشاف بھی ہوا۔ 
 اس دوران عمران خان کو سائفر کیس میں ممکنہ سزا کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ احباب کا اندازہ تھا کہ ایسا ہوا تو اس کا فائدہ عمران خان اور تحریک انصاف کو پہنچے گا اور ان کا ووٹر جذبہ انتقام سے سرشار ہو کر الیکشن ڈے پر باہر نکلے گا۔ ہمارے ایک سنجیدہ تجزیہ کار دوست کا کہنا تھا کہ خان کو سزا سنانے کی غلطی نہیں کی جائے گی۔ ان کی رائے میں فیصلہ محفوظ کر لیا جائے گا، الیکشن کے بعد سنائیں گے کہ اس وقت سزا سنانا تو پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔ 
 رات کو گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ 11 بجے تک کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں چلتی رہی۔انہی دوست کو میسج بھیجا تو وہ حیران ہوئے۔ انہیں کہا کہ کل تک فیصلہ آ سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا دیکھیں ممکن ہے عقل وخرد غالب رہے اور فیصلہ نہ سنائیں۔ خیر منگل کی صبح فیصلہ آ بھی گیا۔ حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ سڑکوں پر نکلنے کے بجائے ہر جگہ ایک ہی ٹرینڈ چلایا کہ ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیا جائے۔ 
 میں نے اپنے دوست کو میسج بھیجا کہ یہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہی ہو رہا اور اس سکرپٹ میں غالباً یہ سوچا گیا تھا کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف کا ووٹر دلبرداشتہ ہو کر گھر بیٹھ جائے گا۔ توقع تھی کہ شاک اتنا بڑا ہو گا کہ انصافین کارکن چکرا جائیں گے یہ اور بات کہ جوابی سکرپٹ میں اس فیصلے کا اندازہ کر کے اپنی حکمت عملی بھی بنا لی گئی تھی۔ 
 معلوم نہیں کس حد تک اس میں حقیقت ہے مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ سب ایک سکرپٹ کا حصہ ہی ہے۔ عمران خان جب زخمی ہو کر زمان پارک لاہور میں کئی ماہ تک مقیم رہے تو لاہور کے صحافیوں کی ان سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں۔ خان صاحب خود بعض ملاقاتوں میں اس سکرپٹ کی تفصیل بیان کرتے رہے۔ وہ اسے لندن پلان کا نام دیتے تھے جو ن لیگ کے ماہرین نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر تیار کیا۔ 
 اس مجوزہ پلان کے مطابق پہلے عمران خان پر بہت سے مقدمات قائم کیے جائیں، مختلف شہروں بلکہ مختلف صوبوں میں۔ یہ وہ حربہ ہے جو نوے کے عشرے میں ن لیگ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف آزمایا تھا۔ وہ کراچی سے راولپنڈی اپنے کیس بھگتانے آیا کرتیں۔ پلان یہ تھا کہ اتنا تھکایا جائے کہ کچھ سوچنے کی سکت ہی نہ رہے۔ پھر پارٹی پر دباﺅ ڈالا جائے، اہم لیڈر توڑے جائیں، الیکٹ ایبلز الگ ہوں، کارکنوں کو دلبرداشتہ کر دیا جائے۔ (نو مئی سے ان سب کاموں کو کرنا آسان ہوگیا۔ )
 تحریک انصاف کی قیادت کے مطابق لندن پلان کا اگلا حصہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس کہیں کوئی کام کا امیدوار نہ ہو، پارٹی میں اندرونی اختلافات کو ہوا دی جائے ۔حامی میڈیا کا بازو مروڑ کر انہیں ’راہ راست‘ پر لایا جائے، عدلیہ میں نرم گوشہ رکھنے والے ججز پر اتنا دباﺅ آئے کہ وہ پسپا ہو کر خاموش ہو جائیں۔عمران خان کی ذات کے حوالے سے اتنے سکینڈلز، آڈیو ویڈیو لیکس آئیں کہ کارکنوں کا اپنے لیڈر پر سے اعتماد ختم ہوجائے۔
ایک سے زائد عدالتوں سے لمبی سزائیں ہوں ۔الیکشن میں نااہلی ہو اور کارکنوں سے خان کا رابطہ بالکل منقطع ہوجائے۔ کنفیوژن اس قدر بڑھ جائے کہ خان کے حامی چکرا کر گھر ہی بیٹھ جائیں۔ انہیں سمجھ ہی نہ آئے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کرنا چاہیے؟ 
 خداجانے لندن پلان واقعی تھا یا یہ صرف ایک سازشی تھیوری ہے۔ البتہ عمران خان نے اپنے آخری دنوں کی ملاقاتوں میں جو کچھ کہا، وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ پارٹی توڑنا، مرکزی لیڈروں کو الگ کر کے دوسری پارٹی میں شامل کرانا۔بیلٹ پیپر پر پارٹی کا انتخابی نشان نہ ہونا ، عمران خان کو لمبی سزا دلانا وغیرہ۔ اینکر حبیب اکرم اس حوالے سے بہت تفصیلی پروگرام کر چکے ہیں۔
 سکرپٹ پر عمل تو بہرحال ہو رہا ہے، تحریک انصاف کے لیے الیکشن لڑنا مشکل بنا دیا گیا۔ انتخابی نشان نہ ہونے سے 50 فیصد سے زیادہ الیکشن وہ پہلے ہی ہاتھ سے گنوا بیٹھے ہیں۔ الیکشن کمپین نہ کرنے دینا، جلسہ، ریلی وغیرہ پر پابندی سے مزید نقصان ہو رہا ہے۔ اگر الیکشن ڈے سے پہلے فعال ورکر پکڑ لیے گئے تو حلقوں میں پولنگ سٹیشنز پر پولنگ ایجنٹ مقرر کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ عمران خان کو لمبی سزا دینا بھی اسی سکرپٹ کا حصہ ہی لگ رہا ہے۔ 
 ایک سکرپٹ مگر جوابی بھی ہے، عمران خان اور ان کے چند قابل اعتماد ساتھیوں نے اسے ترتیب دیا اور ڈیالہ جیل میں وکلا سے ملاقاتوں کے بعد اس میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس کے تین چار بنیادی نکات بتائے جاتے ہیں۔ 
 سب سے اہم الیکشن کو متنازع بنانا ہے۔ اس مقصد میں تو عمران خان کامیاب ہوئے ہیں اور یہ سب حکومت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ انتخابی نشان چھیننا ہی الیکشن کو متنازع بنانے کے لیے کافی ہے۔ جتنا زیادہ دبانے کی کوشش ہو رہی ہے، اتنا ہی ن لیگ کی جیت مشکوک اور متنازع بنتی جا رہی ہے۔ 
 دوسرا نکتہ جو دراصل بنیادی ہے، وہ یہ کہ الیکشن کا کسی بھی صورت میں بائیکاٹ نہیں کرنا۔ دراصل عمران خان نے 2008 کے الیکشن بائیکاٹ سے سبق سیکھا ہے ۔ انہیں تب ہی سمجھ آ گئی تھی کہ سیاست میں ہمیشہ میدان کے اندر رہ کر لڑنا پڑتا ہے، ہار جائیں تب بھی میدان میں رہنا آئندہ کے لئے بہتری لاتا ہے۔ بائیکاٹ نری تباہی ہے۔ اسی وجہ سے اس بار عمران خان شروع ہی سے یکسو ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوجائیں، الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا۔ اپنے ساتھیوں سے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے سزائے موت دے دیں تب بھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا۔ 
 تیسر انکتہ وہی ہے جو کوئی فاسٹ باﺅلر ہی سوچ سکتا ہے۔ آخری گیند تک لڑتے رہنا اور کسی کرشمے کی امید میں اپنی پوری جان لگا دینا۔ خان کی ہدایت ہے کہ جتنے بھی برے حالات ہوں، ہر جگہ الیکشن لڑا جائے، اپنی پوری کوشش کی جائے اور اگر بڑا ٹرن آﺅٹ ہوگیا تو یہ کرشمہ ہی ہوگا، پھر ن لیگ کے بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے۔ 
 عمران خان نے اپنا ٹک ٹاک اکاونٹ بنایا اسی لئے تھا کہ اسے سمجھ آ گئی تھی کہ آخر میں فزیکل کمپین چلانے کے بجائے ڈیجیٹل ٹولز ہی استعمال کرنے پڑیں گے۔ آج وہی ٹولز تحریک انصاف کی قوت اور واحد امید بنے ہوئے ہیں۔ فیس بک ، واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹک ٹاک پر ہی تحریک انصاف کی تنظیم اپنی کمپین چلا رہی اور اپنے پیغامات عام آدمی تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
 آج یکم فروری ہے، الیکشن میں ایک ہفتہ رہ گیا۔
 دو سکرپٹ بروئے کار لائے جا رہے۔ ایک تحریک انصاف کی مخالفت میں انہیں ہرانے کے لئے جبکہ دوسرا تحریک انصاف کے حق میں ، موثر دفاع کے لئے۔ وہ وقت دور نہیں جو فیصلہ کر دے گا کہ کون سا سکرپٹ موثر رہا اور کس سکرپٹ رائٹر کی جیت ہوئی؟
 وقت ہی ہار جیت کا تعین کرتا ہے۔ باتیں، دعوے، بڑھکیں نہیں۔وہ وقت آن پہنچا ہے

شیئر: