Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جماعت اسلامی کا پیپلز پارٹی سے اُوپر جانا حیران کن ہے: اردو نیوز سروے پر تبصرہ

ماہرین کے مطابق ’الیکشن نتائج میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن مختلف ہو سکتی ہے (فائل فوٹو: جماعت اسلامی میڈیا سیل)
اردو نیوز کے الیکشن سروے پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ ’رائے دہندگان کے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی سمجھدار اور زمینی حقائق سے آگاہ ہیں۔‘
سینیئر سیاسی تجزیہ کار اور انتخابی عمل کے مبصر سرور باری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سروے میں سامنے آنے والی آرا سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ آئندہ حکومت کے انتخاب کے لیے واضح رائے رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لیکن انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کے نتائج ایک مخصوص صورت حال کو جنم دیں گے۔‘
انتخابی حلقوں کی سیاست کے ماہر اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ’اردو نیوز کے سروے میں جماعتِ اسلامی کا تیسری بڑی پسندیدہ جماعت کے طور پر سامنے آنا حیران کن ہے،‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ’ممکن ہے حتمی انتخابی نتائج سروے سے مختلف ہوں۔‘
سرور باری کے مطابق سات ہزار سے زائد افراد میں سے اکثریت کا آئندہ حکومت کے لیے ایک جماعت کو منتخب کرنا اور وزارتِ عظمٰی کے لیے دوسری جماعت کے امیدوار کے بارے میں پیش گوئی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت نے اپنی مرضی تو بتائی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اظہار بھی کیا ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق وزیراعظم اس جماعت سے نہیں بن سکتا جس کی حکومت وہ بنانا چاہتے ہیں۔
آٹھ فروری کے انتخابات سے متعلق اردو نیوز کے ایک سروے کے دوران 7159 افراد نے رائے دی جس میں اکثریت نے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کو آئندہ حکومت بناتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
سرور باری کے مطابق ’جماعت اسلامی کی مقبولیت میں اضافے کے پیچھے عوام کی دو بڑی جماعتوں سے مایوسی کا پہلو ہے کیونکہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانا اُن کے بس میں نہیں ہے۔‘

’عوام دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو وہ ووٹ دینا نہیں چاہتے اس لیے وہ جماعت اسلامی کی حمایت کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کی جگہ اس کو ووٹ دے رہے ہیں۔
انتخابات کے بعد نئے وزیراعظم کے بارے میں رائے دہندگان کی اکثریت نے نواز شریف جبکہ ان کے بعد عمران خان کے وزیرِاعظم بننے کے بارے میں رائے دی۔ بلاول بھٹو کو وزیراعظم کے طور پر دیکھنے والوں کی تعداد تیسرے نمبر پر ہے۔
سرور باری نے کہا کہ ’لوگوں کو پتہ ہے کہ عمران خان جیل میں ہیں اور نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکانات ہیں، لیکن اس کے باوجود زیادہ لوگوں نے تحریک انصاف کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔‘
’تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ عمران خان کو نہیں بلکہ نواز شریف کو اگلا وزیراعظم بنتا دیکھ رہے ہیں۔‘

انتخابی حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز کے مطابق ’اس سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ اب بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی وزارتِ عظمٰی کے بارے میں زیادہ لوگوں نے اس لیے پیش گوئی کی ہے کیونکہ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے خیال میں اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟‘
احمد اعجاز نے کہا کہ ’سروے میں جماعت اسلامی کا تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آنا حیران کن ہے اور اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘
’ایک تو یہ کہ جن علاقوں سے سیمپلز لیے گیے ہیں وہاں جماعت کی اکثریت ہو اور دوسرا یہ کہ چونکہ انتخابات کے ماحول میں جماعت کا سوشل میڈیا ونگ کافی متحرک ہے تو ان کے لوگوں نے اس سروے میں بڑی تعداد میں حصہ لیا ہو۔‘
احمد اعجاز کے مطابق ’زمینی حقائق مختلف ہو سکتے ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ عام انتخابات کے حتمی نتائج اس سروے سے مختلف ہوں۔‘

شیئر: