Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فنکاروں، فوجیوں اور کھلاڑیوں میں سے کون کامیاب سیاست دان ثابت ہوا؟

سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان اور میجر جنرل تجمل حسین بھی میدانِ سیاست میں اترے (فائل فوٹو: فلِکر)
پاکستانی سیاست اپنی ہنگامہ خیزیوں، بدلتے رنگوں اور معرکہ آرائی کی وجہ سے اپنے اندر بیک وقت کھیل، اداکاری اور سپاہ گری کی خصوصیات رکھتی ہے۔
ماضی میں تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سیاست میں قسمت آزمائی کی۔ ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان ملک کے وزیراعظم کے منصب تک بھی پہنچے۔
دنیا بھر میں پیشہ ور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں سے شہرت پا کر سیاست میں قدم رکھنے والے افراد کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان کے 2024 کے انتخابات میں کھیل، شوبز اور فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہت قلیل تعداد حصہ لے رہی ہے۔
افواج پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کا رخ کرنے والے کچھ امیدوار مختلف جماعتوں کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس بار کھیل کے میدان سے میدان سیاست میں اپنے جوہر دکھانے والا کوئی امیدوار موجود نہیں ہے۔
موجودہ الیکشن میں فنون لطیفہ سے وابستگی کا پس منظر رکھنے والی واحد امیدوار مہتاب اکبر راشدی ہیں۔
اپنے دور کی معروف ٹیلی ویژن میزبان اور اداکارہ اس سے قبل 2013 میں فنکشنل لیگ کی طرف سے سندھ میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن اسمبلی بنی تھی۔
اس مرتبہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے خواتین کی مخصوص سیٹ پر سندھ اسمبلی کے لیے امید وار ہیں۔

کھیل کے میدان سے سیاسی اکھاڑے تک

پاکستان میں ایک سابق کرکٹ کپتان عمران خان ملک کے وزیراعظم کے منصب تک پہنچے۔ ان کی ذات سے لگاؤ رکھنے والوں کی اکثریت کے لیے ورلڈ کپ جیتنے کا کارنامہ اس وابستگی کی وجہ ہے۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں عمران خان کے بولنگ سکواڈ کا حصہ رہنے والے سرفراز نواز 1985 کے الیکشن میں کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے تھے۔
عمران خان کے  نقاد اور مخالف سرفراز نواز نے 2013 میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر لاہور سے ان کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا مگر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے باوجود وہ میدان میں نہ آئے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایک اور کپتان عبدالحفیظ کاردار کا سیاسی کیریئر بھی کامیابیوں کو حامل رہا ہے۔
وہ 1970 کے الیکشن میں لاہور سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن اور وزیر خوراک بنے۔
بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور سوئٹزرلینڈ میں سفیر کے عہدے بھی ان کے حصے میں آئے۔
عبدالحفیظ کاردار 1977 میں ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر اس بار انہوں نے الیکشن کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک کے دوران اعتزاز احسن کے ساتھ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
فضل محمود  پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک اور کپتان جنہوں نے میدان سیاست میں کامیاب اننگز کھیلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
انہوں نے 1990 کے الیکشن میں لاہور سے طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مقابل انہیں صرف 1497 ووٹ مل سکے۔
پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے دو نامور کھلاڑیوں نے بھی پنجاب کی انتخابی سیاست میں کامیابی سے حصہ لیا۔
سابق اولمپین اختر رسول صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر رہے۔1997 میں مسلم لیگ نون کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا۔
اسی نااہلی کے باعث وہ 2002 میں قاف لیگ کا حصہ ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے۔
قاسم ضیا پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر رہے ہیں ۔وہ 1984 میں ہاکی اولمپک جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2002 میں پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت میں وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اپوزیشن لیڈر بنے۔
قاسم ضیا نے 2013 میں سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا۔

نواز شریف نے 1970 کی دہائی کے وسط میں اپنا پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلا تھا (فائل فوٹو: فلِکر)

ناروال سے مسلم لیگ نون کے ناراض سابق ایم این اے چوہدری دانیال عزیز کے والد اور قومی اسمبلی کے سابق رکن انور عزیز چوہدری سیاست میں آنے سے قبل اولمپکس گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے تھے۔
گزشتہ برس وفات پانے والی مشہور کاروباری شخصیت اور اقلیتوں کی نشست پر ممبر قومی اسمبلی رہنے والے بہرام آواری کا تعلق بھی کشتی رانی کے کھیل سے تھا۔ انہوں نے 1978 اور 1982 کے ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتا۔
پاکستان کے ایک سیاست دان ایسے بھی ہیں جنہوں نے 1970 کی دہائی کے وسط میں اپنا پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلا تھا۔
پاکستان ریلویز اور پی آئی اے کے درمیان کھیلے جانے والے اس میچ میں وہ بغیر کوئی رنز بنائے آؤٹ ہو گئے تھے۔
کرکٹ میں ناکامی کے باوجود وہ پاکستانی سیاست کے سب سے کامیاب کھلاڑی ثابت ہوئے۔
مسلم لیگ نون اگر آج کے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو کوئی سکور نہ کرنے والے یہی نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔

سپہ گری سے سیاست نگری تک    

ایک طویل عرصے تک میدان جنگ کے لیے مستعد رہنے والے سابق فوجیوں کے بطور امیدوار قومی اسمبلی آنے کا تناسب ان انتخابات میں خاصا کم ہے۔
بلوچستان کے سابق گورنر لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ اس مرتبہ این اے 260 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔
سیالکوٹ سے بریگیڈیر ریٹائرڈ اسلم گھمن اور ننکانہ صاحب سے بریگیڈیئر  ریٹائرڈ اعجاز شاہ ممبر قومی اسمبلی کے لیے پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
اٹک سے میجر ریٹائرڈ  طاہر صادق اور مری سے میجر ریٹائرڈ لطاسب ستی بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ماضی میں جیت چکے ہیں۔ اس مرتبہ دونوں قومی اسمبلی کے لیے میدان میں موجود ہیں۔
راولپنڈی سے ہی قومی اسمبلی کے امیدوار کرنل ریٹائرڈ اجمل صابر پی ٹی آئی کی حمایت سے فوجی گھرانے کے ایک اور فرد چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل ہیں۔
چکوال کے حلقہ سے مسلم لیگ نون کے میجر ریٹائرڈ طاہر اقبال کا مقابلہ صحافی اور دانشور ایاز امیر سے ہے۔ شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ایاز امیر فوج میں بحیثیت کپتان خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
اسی حلقے سےمسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر  پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل مجید ملک سابق آرمی افسران میں سے سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنے والے افراد میں شامل تھے۔
اس مرتبہ کی انتخابی جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کی زیادہ تعداد کا تعلق  راولپنڈی ڈویژن سے ہے۔
اتفاق سے اسی ڈویژن سے پاکستان کی بری اور فضائیہ کے دو سربراہان الیکشن میں شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔

چکوال سے قومی اسمبلی کے امیدوار ایاز امیر فوج میں بحیثیت کپتان خدمات سر انجام دے چکے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب) 

سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان اور فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان 1988 کے الیکشن میں راولپنڈی اور چکوال سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر شکست سے دو چار ہو گئے تھے۔
ایئر مارشل نور خان البتہ 1985 میں غیرجماعتی انتخابات میں اسی حلقے سے کامیابی حاصل کر چکے تھے۔
ایئر فورس کے ایک اور سابق سربراہ اصغر خان کو1970 اور 1990 کے انتخابات میں راولپنڈی اور لاہور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔البتہ 1977 کے انتخابات میں وہ کراچی سے کامیاب ٹھہرے تھے۔
مشہور زمانہ راولپنڈی سازش کیس کے مرکزی ملزم جنرل ریٹائرڈ اکبر خان 1970 میں قومی اسمبلی کے نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ البتہ بعد میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر تعینات کر دیے گئے۔
انہی کے ایک ساتھی ارباب نیاز محمد خان کو 1985 کے الیکشن میں پشاور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سنہ 1993 کے الیکشن میں چکوال کے ایک حلقے سے افواج پاکستان کے سزا یافتہ میجر جنرل ریٹائرڈ تجمل حسین نے حصہ لیا۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کے امیدوار کے طور پر وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
اسی الیکشن میں ایک اور سابق میجر جنرل نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن جیتا۔
مینجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

میجر جنرل محمد حسین انصاری ریٹائرمنٹ کے بعد جمیعت علماء پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے 1988 کے الیکشن میں لاہور سے کامیابی حاصل کی تھی۔
اوکاڑہ سے ایک سابق فوجی افسر میجر جنرل ریٹائرڈ فرمان علی خان کو 1985 کے الیکشن میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔
صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) کے سابق گورنر جنرل فضل حق 1988 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقے کوہستان سے کامیاب ہوئے مگر صوبائی اسمبلی کے لیے وہ پشاور سے کامیاب نہ ہو سکے۔
سابق گورنر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی تھے۔ میاں محمد نواز شریف کی سزا کے بعد ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات کے بعد عبدالقادر بلوچ نے ن لیگ سے فاصلہ اختیار کر لیا۔
سنہ 2008 کے الیکشن میں ایک اور سابق لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پہلے تو کامیاب قرار پائے مگر بعد میں تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر کورٹ نے ان کے مخالف کو کامیاب قرار دیا۔
مسلم لیگ ن نے انہیں 2014 میں سینیٹر بنایا۔ اسی جماعت کے ٹکٹ پر ایک اور لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔

اداکار جو سیاست میں آئے      

ایک اداکار کو طے شدہ سکرپٹ کے مطابق لوگوں کے جذبات کو اپیل کرنا ہوتا ہے۔ ایک اچھا سیاست دان بھی اپنے لفظوں اور قوتِ ابلاغ سے عوامی جذبات سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں آج تک براہ راست انتخابات میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کی کامیابی کی واحد مثال طارق عزیز تھے۔
سنہ 1997 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ پر حملہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے باعث اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔
سنہ 2002 میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہاجرہ طارق مسلم لیگ قاف کی طرف سے خواتین کی مخصوص سیٹوں پر ممبر اسمبلی بنی تھی۔

نامور اداکارہ کنول نعمان کو مسلم لیگ ن نے 2013 میں مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن بنوایا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

مشہور اداکار رنگیلا کے بیٹی فرح دیبا 2008 میں مسلم لیگ ن کی طرف سے خواتین کے کوٹے پر پنجاب اسمبلی کی ممبر بنیں۔
پاکستانی ڈراموں کے نامور اداکارہ کنول نعمان کو بھی مسلم لیگ ن نے 2013 میں مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن بنوایا۔ تاہم انہوں نے اختلافات کی بنیاد پر 2018 میں رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔
ان خواتین کے برعکس اپنے بے باک انداز کی وجہ سے مشہور مسرت شاہین نے تحریک مساوات کے نام سے باقاعدہ ایک پارٹی بھی قائم کی۔
مسرت شاہین پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں 1997 میں الیکشن لڑیں۔ انہیں 3 ہزار کے قریب ووٹ پڑے مگر 2013 میں اسی حلقے سے وہ صرف 99 ووٹ لے پائیں۔
سنہ 1985 میں لاہور کے دو حلقوں سے تین اداکاروں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔
ایک حلقے میں ’اندھیرا اجالا‘ ڈرامہ سیریل سے شہرت پانے والے قوی خان اور اداکار محمود علی حصہ لے رہے تھے۔ قوی خان 9 ہزار ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر آئے جب کہ محمود علی 14 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس حلقے سے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ فاتح قرار پائے۔

اپنے بے باک انداز کی وجہ سے مشہور مسرت شاہین نے تحریک مساوات کے نام سے باقاعدہ ایک پارٹی بھی قائم کی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

این اے 85 لاہور سے ایک اور فنکار ماسٹر عنایت حسین بھٹی نے بھی خارزار سیاست میں قدم رکھا۔ وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے اور 14 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی حلقے سے جماعت اسلامی کے بانی سید ابواعلیٰ مودودی کے بیٹے فاروق مودودی بھی امیدوار تھے۔ ان کے حصے میں محض 651 ووٹ آئے۔
کراچی سے معروف اداکار سید کمال نے بھی 1985 کے غیرجماعتی الیکشن میں قسمت آزمائی کی۔ انہیں جماعت اسلامی کے عثمان رمز کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
انہوں نے 2002 کے الیکشن میں بھی حصہ لیا مگر نتیجہ پہلے جیسا ہی رہا۔ ان الیکشن میں فلموں کے نامور اداکار شفیع محمد نے بھی پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور ناکام ٹھہرے۔
پاکستان کے معروف گلوکار ابرار الحق نے 2013 اور 2018 میں تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر نارووال سے حصہ لیا۔ ان کے حصے میں کامیابی نہ آ سکی اور موجودہ الیکشن میں وہ تحریک انصاف سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔

صحافت سے سیاست تک

صافت کے فرائض میں سے ایک سیاسی نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ماضی اور حال میں بہت سے صحافیوں نےکوچۂ سیاست کا رخ کیا۔
2024 کے الیکشن میں چند حلقوں سے صحافی اور میڈیا کے اداروں کے مالکان بھی حصہ لے رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور کالم نگار امتیاز عالم بہاول نگر سے حقوق خلق موومنٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی حلقے سے ان کے بھائی ممتاز عالم گیلانی 2008 میں کامیاب ہو کر پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر بنے تھے۔
ان کے علاوہ میڈیا کے تین اداروں کے مالکان بھی اس بار انتخابی دوڑ میں شریک ہیں۔
سما ٹیلی ویژن کے مالک عبدالعلیم خان استحکام  پاکستان پارٹی کی ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ انہیں مسلم لیگ نون کی حمایت بھی حاصل ہے۔
سنو ٹیلی ویژن کے مالک نعیم اعجاز پی پی 10 راولپنڈی سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ پی این این سے ’ایک ٹی وی‘  کا نام اختیار کرنے والے چینل کے مالک ملک اسد کھوکھر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔

سینیئر صحافی امتیاز عالم بہاول نگر سے حقوق خلق موومنٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

جیوے جیوے پاکستان‘ جیسے گیت کے خالق جمیل الدین عالی 1977 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کراچی سے میدان میں اترے۔ انہیں جماعت اسلامی کے سید منور حسن نے بھاری مارجن سے ہرا دیا تھا۔
وہ بعد میں ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
سنہ 1977 میں میں سندھ کے سابق گورنر حکیم سعید نے بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑا۔ انہیں ہرانے والے جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی تھے۔

جمیل الدین عالی ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے (فائل فوٹو: سید عمار علوی)

جماعت اسلامی کے ہی پروفیسر غفور احمد کے ہاتھوں 1970 کے الیکشن میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے فرزند نوابزادہ اکبر خان کو شکست ہوئی۔ لیاقت علی خان کے ایک بھتیجے نے بھی 1985 میں لاہور سے انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکام ہوئے۔

دیگر ممالک کا احوال

پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا میں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے کھیلوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد میدان سیاست میں کامیاب اننگ کھیلی۔
ان میں کرکٹر چیتن چوہان اور کیرتی آزاد نے دو دو مرتبہ اسمبلی کا الیکشن جیتا۔ سابق کپتان اظہر الدین سنہ 2009  میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔
 کانگرس سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے رکن پارلیمنٹ نوجوت سنگھ سدھو سیاست میں آنے سے قبل کرکٹ کے کھلاڑی کے طور پر معروف ہوئے۔
انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور فلم سٹار سیف علی خان کے والد منصور علی خان پٹودی دو بار قسمت آزمائی کے باوجود سیاست میں مقام نہ بنا سکے۔

سابق انڈین کپتان اظہر الدین سنہ 2009  میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اسی طرح سری لنکا کو 1996 کا ورلڈ کپ جتوانے والے کپتان رانا ٹنگا اور جے سوریا نے کرکٹ سے فراغت کے بعد سیاست کے ذریعے لوگوں کی خدمت کی۔
برطانیہ کے نامور شطرنج پلیئر گیری کاسپرو بھی کھیل کے بعد سیاست کے میدان میں کامیاب ہوئے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر ارنلڈ شوا زنگر ریسلنگ سے اداکاری اور پھر سیاست کے افق پر نمایاں ہوئے۔
پاکستانی سیاست میں دن بدن روایتی سیاست دانوں کے برعکس کھیل، تفریح اور سماجی زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جس کا اثر پارلیمنٹ میں قانون سازی اور فیصلہ سازی پر بھی پڑتا ہے۔

شیئر: