Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حمزہ شہباز پنجاب میں مریم نواز کے ساتھ کام کر سکیں گے؟

سیاسی تجزیہ نگار افتخار احمد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شریف خاندان کے درمیان کوئی بہت بڑا اختلاف ہے (فوٹو:اے ایف پی)
عام انتخابات کے بعد یہ آثار تو سامنے آ چکے ہیں کہ مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ پارٹی کی طرف سے وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کے لیے شہباز شریف اور مریم نواز کی نامزدگی بھی کر دی گئی ہے۔
تاہم پارٹی قیادت میں متحرک رہنے والے اور ماضی میں نواز شریف کے جانشین سمجھے جانے والے حمزہ شہباز موجودہ صورت حال میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔
حالیہ سیاسی منظر نامے سے بات مکمل طور پر واضح ہو چکی ہے کہ نواز شریف کی سیاسی جانشین اب صرف مریم نواز ہیں۔ ایسے میں سیاسی مبصرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
ماضی میں حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلٰی اور اپوزیشن لیڈر بھی رہے ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی ان کی گرفت پنجاب خاص طور پر لاہور کی حد تک بہت مضبوط رہی ہے تاہم اب ایسی صورت حال آ چکی ہے کہ ان کے قریبی رفقا کے مطابق وہ صورت حال سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
اُردو نیوز نے حمزہ شہباز کے بہت قریبی ساتھیوں سے اس حوالے بات چیت کی ہے۔ ان میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حمزہ شہباز اپنے آپ کو لیفٹ الون محسوس کرتے ہیں اور وہ اگلے سیاسی منظر نامے میں پنجاب میں اپنا کوئی کردار نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت میں اپنے لیے کوئی راستہ نکالیں کیونکہ وہ اپنے والد کے ساتھ کام کرنے میں اب بہتر محسوس کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ حمزہ شہباز نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیتی ہیں۔ ان کے قریبی دوست نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ حمزہ شہباز کا مزاج جارحانہ نہیں ہے لیکن انہوں نے پارٹی کے لیے ماضی میں بہت محنت کی ہے۔ جس کے ثمرات ہر کسی کو پتا ہیں۔
’ہمیں تو اب بھی لگتا ہے کہ ان انتخابات میں اگر پولنگ ڈے کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی تو ن لیگ کا وہ ووٹر جو نکل نہیں سکا اس کو نکالنا آسان ہوتا۔ بہرحال اب جو ہونا تھا ہو گیا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کی بننے والی حکومت میں اپنے لیے کسی قسم کی وزارت یا کسی دوسرے کردار میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘
یاد رہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار دور میں حمزہ شہباز اپوزیشن لیڈر تھے اور ان کا زیادہ تر وقت جیل میں گزرا اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کے لیے اس وقت کے سپیکر پرویزالٰہی ان کو اجازت نامہ جاری کرتے تھے۔

حمزہ شہباز نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے پرویز الٰہی کے مقابلے میں وزیراعلٰی کا انتخاب بھی لڑا اور ایک طرح سے وزیراعلٰی بن بھی گئے تاہم سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے وہ زیادہ دیر اس عہدے پر نہیں رہ سکے۔
سینیئر صحافی اجمل جامی سمجھتے ہیں کہ ’حمزہ شہباز کو مرحلہ وار ن لیگ کی اندرونی سیاست سے الگ کیا گیا ہے اور اس کا خمیازہ ن لیگ کو ان عام انتخابات میں بھگتنا پڑا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد جب بڑے بڑے اجلاس ہوئے ہیں تو حمزہ کی آمد پر مریم کی آمد سے زیادہ پرجوش نعرے لگتے رہے اور ایسا کئی اجلاسوں میں ہوا۔ لیکن چونکہ بڑے میاں صاحب یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ مریم نواز ہی ان کی سیاسی میراث سنبھالیں گی تو میرے خیال میں حمزہ شہباز عافیت سے ہی الگ ہو گئے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہم جس ن لیگ کو جانتے ہیں وہ الیکشن ڈے کی ماسٹر پارٹی رہی ہے۔ لیکن ان الیکشنز میں میرے ذاتی خیال میں ن لیگ کو مار ہی الیکشن ڈے والے دن پڑی ہے جب وہ اپنا ووٹر نہیں نکال سکے۔
’میں سمجھتا ہوں مریم نواز پارٹی کی چیف آرگنائزر ہونے کے ناطے اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ ان کا ووٹر کیوں نہیں نکلا اور موبائل سروس بند ہونے کے بعد ان کے پاس متبادل بندوبست کیا تھا؟ جب انہیں پتا تھا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر چارجڈ ہے اور ان کا ووٹر روایتی سست۔‘
اجمل جامی کے بقول ’یہی صورت حال میرے خیال میں ن لیگ پڑھ نہیں سکی اور اگر حمزہ شہباز کے پاس یہ ٹاسک ہوتا یا وہ ایکٹولی پارٹی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے تو صورت حال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔ ان کے والد جب پنجاب کے وزیراعلٰی تھے تو انہوں نے پنجاب کے گلی محلے تک 10 سال میں اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔‘

حالیہ سیاسی منظر نامے سے یہ واضح ہو چکا کہ نواز شریف کی سیاسی جانشین اب صرف مریم نواز ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم سیاسی تجزیہ نگار افتخار احمد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شریف خاندان کے درمیان کوئی بہت بڑا اختلاف ہے۔
’میرا خیال ہے اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شریف خاندان میں اختلاف رائے اسی حد تک ہی ہے جس حد تک کسی دوسرے خاندان میں ہوتا ہے۔ حمزہ نے بہت برے وقتوں میں پارٹی کو سہارا دیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی گرفت مضبوط تھی یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن اب معروضی حالات بدل چکے ہیں۔ اب ان کا کردار اس طرح سے صورت حال میں نہیں ہے تو خاموشی کو ہی ترجیح دیں گے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میری ان سے کل ایک جگہ کھانے پر ملاقات ہوئی ہے تو کسی طرح سے شکوہ کناں نظر نہیں آئے بالکہ وہ صورت حال کو سمجھتے ہیں۔ اب ایسے نہیں ہو سکتا کہ ان کا والد وزیراعظم ہو اور وہ وزیر اعلٰی۔‘
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ جب یہ صورتحال بنی تھی تو بھی وہ تنقید کی زد میں آئے تھے۔ اب وہ اپنی دو سیٹیں جیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوئی۔ اصل صورت حال اس وقت واضح ہو گی جب وہ کوئی سیٹ رکھیں گے چاہے وہ قومی کی رکھیں یا صوبائی کی پھر اس کے بعد تبصرے کی گنجائش ہو گی۔‘

شیئر: