Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم ٹو کے ساتھ کتنی بڑی گیم کھیل رہے ہیں؟

مولانا فضل الرحمان 17 مہینوں تک مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کا حصہ تھے۔ (فوٹو: اے پی پی)
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات کے بعد حکومت بنانے والے پی ڈی ایم کے سابق اتحادیوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہونے سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ اس نظام کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’2018 کے انتخابات کے بعد خیال تھا کہ 2024 کے انتخابات منصفانہ ہوں گے لیکن ایک بار پھر ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے فروغ کو کچل دیا گیا ہے اور اب فکر اس بات کی ہے کہ اگر ایک الیکشن کے بعد دوسرا الیکشن متنازع ہو تو پارلیمان کی اہمیت کیا ہو گی؟‘
مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پارلیمان کو سپریم ادارہ کہتے ہیں لیکن ’اسٹیبلشمنٹ مداخلت کر کے اپنی مرضی سے نمائندوں کو چُنے گی تو وہ عوامی نمائندے نہیں ہوں گے۔ جو بھی وہاں بیٹھا ہو گا اس کے اوپر اُنگلی اُٹھے گی کہ اس کو بھی اداروں نے پاس کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) ایسے نظام سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ اہمیت کھو بیٹھے گی تو پھر سوچنا جائز ہے کہ آئندہ اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں یا نہ بنیں۔ پارلیمنٹ میں ہو کر میری قوت ’کسی اور‘ کے رحم و کرم پر ہو گی لیکن میدان میں ہوں تو پھر کسی اور کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی مرکزی حکومت کے دو اہم ستون ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے رہیں گے اور حکومت ’دیوار کے پیچھے والی قوت چلائے گی۔‘
مولانا فضل الرحمان کے موجودہ نظام کے خلاف تحریک چلانے کے اعلان کو مختلف حلقے مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔
کچھ سیاسی مبصرین اسے اپنا وزن بڑھانے کی ترکیب اور کچھ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے حکومت میں شمولیت کے لیے ایک بہتر ڈیل کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے رہیں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم مولانا فضل الرحمان کے قریبی حلقے اس بات کے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ پارلیمانی نظام سے دوری اختیار کر کے ایک طویل احتجاجی مہم چلانے میں سنجیدہ ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے سینیئر رہنما اسلم غوری نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ان کی جماعت کی مستقبل کی سیاست عوام سے جڑنے کی ہے نہ کہ ایک غیر مستحکم حکومت میں شامل ہونے کی۔
کیا انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے اور پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) حکومت سے کوئی بات نہیں کرے گی اور مستقبل میں کسی وقت حکومت میں شامل نہیں ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سیاسی جماعتیں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کرتیں لیکن جہاں تک حکومت میں شمولیت کی بات ہے تو یہ حکومت ہے کتنے دن کی؟‘
اسلم غوری کا کہنا تھا کہ آنے والے دن بتائیں گے کہ جے یو آئی (ف) نے درست فیصلہ کیا ہے۔ ’یہ حکومت کتنے روز چلے گی؟ ابھی آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہو گا اس کے بعد دیکھیے گا کہ کیا تماشا ہونے والا ہے۔‘
اسلم غوری کے مطابق جے یو آئی (ف) مارچ کے پہلے ہفتے میں پشاور، کوئٹہ اور لاہور کی صوبائی کونسلز کے اجلاس میں مشاورت کے بعد رمضان میں پارٹی کی مجلس عاملہ کے سامنے پارلیمانی سیاست کو خیرآباد کہنے کا معاملہ رکھے گی۔
’رمضان کے بعد جنرل کونسل سے اس کی منظوری کے بعد اگلا لائحہ عمل دے گی۔ ہم جماعت اسلامی کی طرح عوام کو تیار کریں گے، انہیں آگاہ کریں گے کہ یہ پانچ سال بعد آپ کو صرف ایک پرچی کا حق دیتے ہیں اور اس پر بھی پھر اپنی مرضی کرتے ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے (فوٹو: اے پی پی)

انہوں نے بتایا کہ ہم چند سیٹوں کی خاطر اپنے نظریات کا سودا نہیں کریں گے بلکہ عوام کے ساتھ جڑیں گے۔‘ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نظام میں اپنا بڑا حصہ چاہ رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی کے خیال میں ان کے ارادے اس مرتبہ مزاحمت کے ہیں اور وہ اگر حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے تو اس کے لیے انہیں ایک مکمل پیکیج دینا پڑے گا۔
’مولانا ایک آدھ گورنرشپ یا چند وزارتوں پر نہیں مانیں گے۔ انہیں صرف انتخابی نتائج کا غصہ نہیں بلکہ انہیں یہ بھی غصہ ہے کہ پی ڈی ایم ون کے اقتدار کے بعد انہیں ان کی مرضی کا قد کاٹھ نہیں دیا گیا۔‘
اجمل جامی کے مطابق ’جو رتبہ اور قد کاٹھ انہیں پی ڈی ایم کے قیام کے وقت دیا گیا تھا وہ انتخابی مہم یا بعد میں نہیں دیا گیا۔ ان کے خیبر پختونخوا اور ان کے اپنے حلقے میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے تحفظات دور نہیں کیے گیے اور انتخابات کے نتائج کے بعد بھی کوئی ان کے پاس حاضر نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صدارت کے لیے آصف زرداری پر اتفاق کر لیا گیا جبکہ صوبوں کے گورنرز کے لیے بھی دوسرے نام آ رہے ہیں۔ ایسے میں مولانا کے غصے کا مداوا نہیں ہوا۔‘
مولانا فضل الرحمان کو اپنا حصہ بقدر جثہ درکار ہے اور وہ نہ ملنے کی صورت میں احتجاجی تحریک ہی ان کے پاس واحد رستہ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آنے والی حکومت زیادہ مستحکم نظر نہیں آتی اور اگر مولانا اس میں شامل نہ ہو کر احتجاج کے رستے پر ہی چلتے ہیں تو وہ ان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

شیئر: