Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اسرائیل کبھی فلسطین پر قبضہ ختم کرے گا؟

غزہ پر اسرائیلی کارروائی کے بعد عرب دنیا کے علاوہ بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آیا۔ فائل فوٹو واشنگٹن رپورٹ
غزہ میں جاری جنگ چھٹے مہینے کی جانب بڑھ رہی ہے جس پر کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا کوئی امکان ہے۔
اسرائیل کے معروف صحافی گیڈون لیوی نے عرب نیوز کے کرنٹ افیئر شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں کہا ہے ’یہ بات یقینی ہے کہ اسرائیل اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنے کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کر رہا ہے۔‘
گیڈون لیوی چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز کے لیے لکھ رہے ہیں جس میں وہ بنیادی طور پر اسرائیل فلسطین تنازع کا احاطہ کرتے رہے ہیں۔
گیڈون لیوی نے کہا کہ ’اسرائیل نے ریاست کے قیام اور اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ابتداء سے ہی منظم طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی اور شیطانی سلوک روا رکھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل دنیا بھر میں پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کے لیے جوڑ توڑ کا ماہر ہے اور تاریخ میں واحد ایسا قابض ہے جو خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔‘
گیڈون لیوی سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر خاص طور پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 240 اغوا کیے گئے جس کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثر خواتین اور بچے ہیں۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس جنگ کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی پر رضامندی یا جارحیت کم کرنے کے لیے اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
اسرائیلی حکام عرب ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم مملکت نے اسرائیل سے کسی بھی معاہدے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کو شرط قرار دیا ہے۔
اسرائیلی صحافی گیڈون لیوی نے فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا ’مجھے شک ہے کہ موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سمیت کوئی بھی اسرائیلی وزیراعظم اس حد تک جائے گا اور میں اس قبضے کا خاتمہ نہیں دیکھ رہا۔‘

اسرائیلی سیاستدان ابراہم معاہدہ دوبارہ نافذ ہونے کی امید کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو اے پی

اسرائیلی سیاست دان شاید متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا 2020-2021 میں کیا گیا ’ابراہم معاہدہ‘ دوبارہ نافذ ہونے کی امید کر رہے ہیں، اسی معاہدے کے مطابق اسرائیل مراکش اور سوڈان کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لایا تھا۔
شاید وہ اب بھی یہ امید کرتے ہیں کہ ابراہم معاہدے کی طرح جس میں فلسطینیوں سے متعلق پالیسی تبدیل کیے بغیر صرف ہونٹ ہلانے سے ہی انہوں نے کافی اچھا سودا کر لیا تھا۔
اسرائیلی صحافی نے کہا ’میرا خیال ہے اسرائیل میں وزیراعظم بننے کے تمام امیدوار نہ صرف نیتن یاہو بلکہ اپوزیشن بھی سعودی عرب جیسے اہم ملک کے ساتھ  تعلقات معمول پر لانے کے بجائے غزہ پر قبضہ برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔‘

غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

غزہ میں اسرائیل کارروائی کے بعد عرب دنیا کے علاوہ بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آیا ہے جس میں جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں تاریخی مقدمہ دائر کرنا شامل ہے تاہم یہ سب لفاظی سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسرائیلی صحافی کا کہنا ہے کہ ’فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کی جڑیں بہت گہری ہیں لیکن میں نہیں دیکھتا کہ دنیا میں بہت سے رہنماؤں کو فلسطینیوں کی واقعی پروا ہے۔‘
برسہا سال سے بہت سے سیاست دان فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی ان کے لیے حتمی طور پر کچھ نہیں کر رہا جس کے باعث  گذشتہ چند برسوں سے فلسطینی بالکل تنہا رہ گئے ہیں۔

بہت سے سیاستدان فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ فائل فوٹو گیٹی امیجز

’باتیں بہت ہو رہی ہیں جن میں مذمتی قراردادیں اور دیگر بہت سی تسلیاں شامل ہیں لیکن صرف ایک چیز کی کمی ہے اور وہ ہے کسی قسم کا عملی اقدام۔‘
دنیا نے کبھی بھی حقیقی اقدامات نہیں کیے خاص طور پر امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس جنگ کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ اسرائیل کو زیادہ گولہ بارود اور زیادہ اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

شیئر: