Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جازان کے ’جبال القھر‘ کی حقیقت کیا ہے؟

ماہرین کا خیل ہے کہ پورا علاقے لاکھوں برس تک زیر آب رہا ہوگا(فوٹو ایس پی اے)
سعودی عرب کے شہر جازان سے 130 کلومیٹر پر واقع ’القھر‘ پہاڑوں پر ملنے والے جیولوجیکل ثبوت کے مطابق یہ پہاڑیاں لاکھوں سال قبل زیر آب تھیں۔
سعودی خبر رساں ادارے ’ایس پی اے‘  کے مطابق جازان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر زراق بن عیسی الفیفی کو الریث شہر میں واقع پہاڑوں پر ریسرچ کے دوران بحری حیات کے آثار اور شواہد  ملے ہیں ، جن سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ پہاڑیاں صدیوں قبل سمندر کی گہرائی میں تھیں۔

پہاڑ مخروطی شکل کے ہیں  (فوٹو ایس پی اے)

پہاڑیوں پر موجود پتھروں کی نوعیت،  نمکین ریت  اور مخصوص نباتات کی موجودگی اس اندازے کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔ علاوہ ازیں علاقے کے پہاڑ مخروطی شکل کے ہیں جس کے اندر گہری نالیاں بنی ہوئی ہیں، جبکہ پہاڑوں کے گرد بھی نالیوں کے آثار نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر الفیفی کا کہنا تھا کہ علاقے میں مختلف رنگوں کی ریت کی موجودگی بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ یہ علاقہ ایک عرصے تک  زیر آب  رہ چکا تھا۔


ماہرین ارضیات مذکورہ علاقے پر مزید ریسرچ کریں گے(فوٹو ایس پی اے)

ان کا کہنا تھا کہ پہاڑوں کے زیر آب ہونے کا زمانہ پتہ کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ریسرچرز اور ارضیات کے ماہرین کو دعوت دی کہ وہ پہاڑی سلسلے کے اس حیران کن علاقے پر مزید تحقیق کریں۔
واضح رہے کہ القھر پہاڑ سطح سمندر سے 2000 میٹر اونچی  اور منفرد جیولوجیکل خاصیت کی حامل ہیں، جبکہ ان پہاڑوں میں کئی گاؤں اور شہر بھی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں جازان ریجن کے یہ پہاڑ قدیم نقوش اور آثار کی موجودگی کی وجہ سے ریسرچرز کی توجہ کا مرکزبھی رہی ہیں۔


جیولوجیکل سروے اتھارٹی نے وہاں فوسلز بھی دریافت کیے ہیں(فوٹو ایس پی اے)

دوسری جانب سعودی جیولوجیکل سروے اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی علاقے کے پتھروں کی نوعیت جانچ کر وہاں کی قدیم جیولوجیکل حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ القہر پہاڑوں میں آبی حیات کی موجودگی کا امکان سابقہ تحقیق میں بھی ظاہر کیا جاچکا ہے ہے جبکہ اتھارٹی نے وہاں فوسلز بھی دریافت کیے تھے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: