Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی، عمران خان اور نواز شریف کے اتحادی رہ چکے ہیں

عمران خان اور محمود خان اچکزئی آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں اتحادی رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی گذشتہ 50 برسوں سے سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے والد کے قتل کے بعد نوجوانی میں ہی پارٹی کی قیادت سنبھال لی تھی۔ 
وہ ایک بار صوبائی اور پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ محمود خان اچکزئی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے اتحادوں کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
عمران خان اور محمود خان اچکزئی اس سے پہلے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے اور دونوں نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 
انہوں نے دستور پر عمل درآمد، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت پر موقف اختیار کیا ہے۔
محمود خان اچکزئی کا تعلق افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان کے پشتون اکثریتی ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان سے ہے۔ 
وہ 12 دسمبر 1948 کو گلستان کے علاقے عنایت اللہ کاریز میں سابق قوم پرست رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کے ہاں پیدا ہوئے۔ 
محمود خان اچکزئی نے میٹرک اپنے آبائی علاقے گلستان کے سرکاری سکول جبکہ ایف ایس سی گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ سے کی ہے۔ 
انہوں نے پشاور کے انجینیئرنگ کالج سے میکنیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی نے قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت کے خلاف تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں طویل عرصہ قید میں گزارا۔ 
قیام پاکستان کے بعد بھی ان کے والد فوجی حکومتوں کے خلاف بولنے اور تحریک چلانے پر پابند سلاسل رہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے جنرل ایوب کا مکمل دور حکومت جیل میں گزارا۔
ان کے والد نے قیام پاکستان سے پہلے انجمن وطن کے نام سے سیاسی تنظیم بنائی۔ انہیں بلوچستان میں صحافت کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ 
قیام پاکستان کے بعد ان کے والد نے ’ورور پشتون‘ کے نام سے تنظیم بنائی، پھر نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہو کر ون یونٹ کی تشکیل کے خلاف تحریک چلائی۔

محمود خان اچکزئی 90 کی دہائی میں میاں نواز شریف کے اتحادی بنے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

ان کے والد اور خود محمود خان اچکزئی بلوچستان کے پشتون علاقوں پر مشتمل الگ صوبے کے قیام کے حامی رہے ہیں۔ 
عبدالصمد خان اچکزئی نے اسی بنیاد پر نیپ سے الگ ہو کر پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنائی۔
سنہ 1973 میں عبدالصمد خان اچکزئی کے ایک دستی بم حملے میں قتل کے بعد پارٹی کی قیادت محمود خان اچکزئی نے سنبھال لی۔ 
وہ 1974 میں پہلی بار ضمنی انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ محمود خان اچکزئی بھی فوجی حکومتوں کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے ہیں۔
سنہ 1983 میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ضیا حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا جس کے دوران پولیس کے ساتھ تصادم میں ان کی جماعت کے چار کارکن قتل ہو گئے۔ 
اس واقعے کے بعد محمود خان اچکزئی پر متعدد مقدمات بنے جس کے بعد وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے افغانستان چلے گئے اور چھ برس بعد 1989 میں جنرل ضیا کی حکومت کے خاتمے کے بعد وطن واپس آئے۔

محمود خان اچکزئی 8 فروری کے عام انتخابات میں پانچویں بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)

اس دوران وہ نواز شریف اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مخالف رہے۔ نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر پشتونخوا میپ کے کارکنوں نے یوم سیاہ منایا، تاہم 90 کی دہائی میں محمود خان اچکزئی میاں نواز شریف کے اتحادی بنے۔ 
محمود خان اچکزئی 1990 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ 2024 میں وہ پانچویں بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ سنہ 2008 کے انتخابات کا ان کی جماعت نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 
محمود خان اچکزئی تحریک بحالی جمہوریت کے سرکردہ رہنماؤں میں رہے۔ وہ پرویز مشرف حکومت کے خلاف بننے والے اتحاد آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ بھی رہے۔ 
پشتون، بلوچ، سندھی اور سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد ’پُونم‘ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مرکزی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 
ان کے بڑے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں جبکہ چھوٹے بھائی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ 

شیئر: