Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قیدی نمبر 804 اور قیدی نمبر 420‘، انتخاب سے قبل ایوان میں کیا ہوتا رہا؟

قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین آمنے سامنے اور کافی دیر تک ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ 
اتوار کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 11 بجے ہونا تھا لیکن 11 بج کر 40 منٹ پر مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ارکان ایوان میں پہنچے۔
محمود خان اچکزئی حکومتی بینچوں کے قریب کھڑے تھے تو لیگی ارکان نے باری باری ان سے مصافحہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کافی دیر تک بلاول بھٹو زرداری کے گرد جمع رہے اور ان سے گفتگو کرتے رہے۔ 
مہمانوں کی گیلری میں شہباز شریف کے اہل خانہ جن میں ان کے بیٹے، بیٹیاں، بہو اور پوتیاں شامل تھیں، براجمان تھے۔ 
سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی آمد سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور وزیراعظم کے اُمیدوار شہباز شریف ایوان میں پہنچے۔ دونوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں سے مصافحہ کیا اور اپنی نشست پر جا بیٹھے۔
نواز شریف اور شہباز شریف کی آمد پر لیگی ارکان نے ’شیر شیر‘ کے نعرے بلند کیے۔
سنی اتحاد کونسل کے ارکان عمران خان کی تصاویر والے بینر اُٹھائے ایوان میں داخل ہوئے اور ایک ایک کر کے سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گئے۔
اراکین نے ’مینڈیٹ چور مُردہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے جس کے جواب میں ن لیگ کے ارکان نے ’گھڑی چور گھڑی چور‘ کے نعرے لگائے۔ ان نعروں کے بعد سنی اتحاد کونسل کے ایک رُکن نے ڈائس پر کھڑے ہو کر جوتا لہرا دیا۔ 
گذشتہ دو اجلاسوں کے برعکس اب اس اجلاس میں مسلم لیگ ن کے اراکین بھی سرگرم نظر آئے اور انہوں نے بھی بھرپور جوابی نعرے بازی کی۔
لیگی ارکان نے ’قیدی نمبر 804‘ کے مقابلے میں ’لُٹ کے لے گیا ہر ایک چیز، قیدی نمبر 420‘ متعارف کرایا۔

نواز شریف اور شہباز شریف کی آمد پر لیگی ارکان نے ’شیر شیر‘ کے نعرے بلند کیے (فوٹو: اُردو نیوز)

دونوں جماعتوں کے ارکان کی نعرے بازی جاری تھی کہ پورے 12 بجے اجلاس شروع ہوگیا۔ تلاوت کے دوران وقتی طور پر احتجاج اور نعرے رُک گئے اور ارکان اپنی نشستوں پر واپس جا کر بیٹھ گئے۔ 
تلاوت، نعت اور پھر قومی ترانے کے فوراً بعد سنی اتحاد کونسل کے تمام ارکان سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔
احتجاج کے دوران سپیکر ایاز صادق نے نومنتخب رکن قومی اسمبلی جام کمال سے حلف لیا۔ نواز شریف جتنی دیر اپنی نشست پر براجمان رہے لیگی ارکان نے انہیں گھیرے رکھا۔ 
جمشید دستی پالش کی ڈبی اُٹھا کر دکھاتے رہے جبکہ لیگی ارکان کی جانب سے گھڑیاں ہوا میں لہرائی گئی۔ 
سنی اتحاد کونسل کے تمام ارکان جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چند درجن ارکان ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے تاہم پیپلز پارٹی کے تمام اور مسلم لیگ (ن) کے بیشتر ارکان اس نعرے بازی سے لا تعلق اپنی نشستوں پر موجود رہے۔ 
اس شور شرابے میں سپیکر ایاز صادق وزیراعظم کے انتخاب کا طریقہ کار بتاتے رہے لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ 
اس احتجاج کے دوران وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف اپنی نشست سے اُٹھ کر چار پانچ نشستیں دور بلاول بھٹو زرداری کے پاس گئے اور ان سے کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ 
نعرے بازی کے طویل مقابلے کے بعد سنی اتحاد کونسل کے ارکان واپس اپنی نشستوں پر چلے گئے۔ جس کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہو گیا اور ارکان امیدواروں کے لیے مختص لابیوں میں جانے لگے۔ 
اجلاس کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بینر بھی لہرایا۔ 

شیئر: