Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کبھی سوچا نہ تھا کہ ایم این اے بنوں گی: سبین غوری

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رکن قومی اسمبلی سبین غوری نے کہا ہے کہ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بھیڑ میں عوام کے لیے آواز بلند کرنا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابتدا میں ایم کیو ایم کی طلبا تنظیم اے پی ایم ایس او کی رکن بنی اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد پارٹی کا سوشل میڈیا کا شعبہ جوائن کیا۔‘
سبین غوری طویل عرصے سے ایم کیو ایم کی سی آئی سی ( سینٹرل انفارمیشن کمیٹی) میں ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر گھریلو خواتین اپنی نجی زندگی میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر گھر سے سپورٹ ہو تو بہت سے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں اور میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔‘
سبین غوری مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنی ہیں۔
’کبھی سوچا نہیں تھا کہ دور طالب علمی میں جو سیاسی سفر شروع کیا تھا وہ یہاں تک پہنچے گا اور قومی اسمبلی میں اپنے شہر کی نمائندگی کروں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قومی اسمبلی کے ایوان میں اکثریت جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور پیسے والوں کی نظر آتی ہے۔ ان کے درمیان اپنے شہر کے عوام کے مسائل کے لیے بات کرنا آسان نہیں ہو گا، لیکن پارٹی نے بھروسہ کر کے یہ موقع دیا ہے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گی کہ پارٹی کے اعتماد پر پورا اتروں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں۔‘

سبین غوری زمانہ طالب علمی میں متحدہ کی طلبا تنظیم سے منسلک ہو گئی تھیں (فوٹو: ایم کیو ایم، سوشل میڈیا)

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے منصوبے موجود ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر انہیں درست سمت میں مدد فراہم کی جائے تو وہ بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
سبین غوری ملک میں سوشل میڈیا کی آزادی کی علمبردار ہیں۔
’ملک میں سوشل میڈیا جکڑا ہوا ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں۔
سبین غوری نے ایم کیو ایم کے بلدیاتی دور میں کراچی میں کیے گئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم نے چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے جن سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو گھنٹوں کے انتظار کی تکلیف، پریشانی اور دفاتر کے چکر لگانے جیسے مسائل سے چھٹکارا ملا اور وہ گھر بیٹھے بہت سے مسائل خود کار نظام کے تحت حل ہونے لگے۔‘
ان کے بقول ’اگر بڑی سطح پر عوامی مسائل کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو عوام کو بڑے پیمانے پر ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: