Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی سے بہن بھائی کی پُراسرار ’گمشدگی‘ اور واپسی، اصل کہانی کیا ہے؟

والد کے وکیل زاہد حسین سومرو ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے شہر کراچی سے دو روز قبل پراسرار طور پر لاپتا ہو جانے والے کم عمر بہن بھائی کی واپسی کے بعد بچوں کے والد اور والدہ کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بچوں کے لاپتا ہونے کی خبر سے حرکت میں آنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ بچوں نے ابتدائی معلومات میں انکشاف کیا ہے کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ گھر والوں کے رویے سے تنگ آ کر خود گھر چھوڑ کر گئے تھے۔
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ کے رہائشی دو کم عمر بچوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دبئی میں مقیم ان کی والدہ شمائلہ ناز نے بدھ کی رات کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے دی۔ شمائلہ ناز نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ ان کا بیٹا ایان اور بیٹی انابیہ گھر سے برگر لینے نکلے تھے اور واپس نہیں آئے، ان کے بچوں کی تلاش میں مدد کی جائے۔
یہ خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی اور چند ہی گھنٹوں میں ان بچوں کی تصاویر کے ساتھ ان کی بازیابی کے اپیلیں واٹس ایپ گروپس میں بھی شیئر ہونے لگیں۔
سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آئے اور بچوں کی بازیابی کے لیے اقدامات شروع کیے گئے۔ بچوں کے ماموں کی مدعیت میں ایف آئی آر بھی درج ہو گئی۔
لیکن اس واقعے کے ایک ہی دن بعد بچے کراچی کے ایک شاپنگ مال سے ملے جہاں سے رینجرز اہلکار بچوں کو اپنے ہمراہ گھر والوں تک لے آئے۔ بچوں کی واپسی پر انہیں جمعرات کو پولیس کی جانب سے کراچی کی مقامی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ وسطی کے روبرو پیش کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کو کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے گئے تھے۔
تفتیشی افسر کے مطابق ’بچوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان پر ظلم کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے گھر سے جانے کا فیصلہ کیا۔ بچوں کی تعلیم بھی کئی سال پہلے چھڑوا دی گئی تھی اور ان سے گھر کے کام کاج کروائے جا رہے تھے۔‘
بچوں نے عدالت کو کیا بتایا؟
جوڈیشل مجسٹریٹ نے عدالتی کارروائی کے درمیان ریمارکس دیے کہ پہلے بچوں کا بیان قلمبند ہو گا۔ بچوں کے بیانات ریکارڈ ہوں گے، اس کے بعد دیگر درخواستوں پر سماعت ہو گی۔
بچوں نے عدالت میں بیان دیا کہ مار پیٹ کی وجہ سے وہ گھر سے چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا، وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔
بچوں نے عدالت میں مزید کہا کہ وہ اپنی دوسری خالہ (فرحین عرف سونیا) کے ساتھ ان کے گھر جانا چاہتے ہیں، جس خالہ کے ساتھ وہ اب تک رہتے تھے، اُن کے ساتھ انہیں نہیں رہنا ہے۔
آٹھ برس قبل علیحدگی اختیار کرنے والے والدین کی جانب سے الگ الگ پیش ہونے والے وکلا نے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ’بچوں کے والدین کے درمیان علحیدگی ہوچکی ہے۔ بچوں کی ماں دبئی میں ملازمت کرتی ہے، وہیں رہائش پذیر ہے، بچے یہاں نانی کے گھر خالہ اور ماموں کے ساتھ رہتے ہیں۔‘
بچوں کے والد کا موقف کیا تھا؟
بچوں کے والد کے وکیل زاہد حسین سومرو ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ بچوں نے تشدد سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ بچوں کے گھر چھوڑ کر جانے کی وجہ سے واضح ہے کہ وہ نانی اور خالہ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے ننھیال والوں نے دو برس سے بچوں کی والد سے ملاقات بھی نہیں کرائی ہے، بچے سکول بھی نہیں جارہے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ بچوں کی خالہ اور ماموں کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے۔

بچوں کی والدہ کا موقف ہے کہ یہ اغوا کا کیس تھا جسے پولیس نے کسی اور طرف موڑ دیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

مدعی مقدمہ کا موقف
مقدمے کے مدعی(ماموں) کے وکیل نے کہا کہ بچے اغوا ہوئے تھے۔ دو سال تک باپ نے بچوں کا پتا تک نہیں کیا۔ بچوں کا والد اپنے بچوں کے معاملے میں بالکل غافل ہے۔ کئی برسوں سے بچوں کا خرچہ تک نہیں دیا گیا ہے۔
عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد بچوں کی رائے کے مطابق انہیں دوسری خالہ (فرحین عرف سونیا) کی تحویل میں دینے کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے بچوں کی خالہ کو پانچ ، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے خالہ کو پابند کیا کہ وہ بچوں کو  متعلقہ تھانے کی حدود میں رکھنے کی پابند ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایس ایس پی ضلع وسطی کو ہدایات جاری کیں کہ پولیس بچوں کی کسٹڈی والے گھر پر اپنی نفری کو پابند کرے۔
عدالت نے بچوں کی کسٹڈی حاصل کرنے والی بچوں کی خالہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ پولیس افسر ہر ہفتے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں کہ آیا بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرایا گیا یا نہیں۔
بچوں کی والد اپنے دعوے پر قائم
اس واقعے کے بعد بچوں کی والدہ نے ان کے مل جانے کی اطلاع بھی دی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’دو نامعلوم افراد میرے بچوں کو حیدری مارکیٹ کے ایک شاپنگ مال میں چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بچوں حیدری میں موجود ہیں۔ گھر والے جب رینجرز اہلکاروں کے ساتھ شاپنگ مال پہنچے تو میرے بچے وہاں موجود تھے۔‘
بچوں کے اپنے گھر والوں کے خلاف بیان پر بچوں کی والدہ نے کہا کہ ان کے بچوں سے زبردستی یہ بیان ریکارڈ کروایا گیا ہے کہ وہ خود گھر چھوڑ کر گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اغوا کا کیس تھا جسے پولیس نے کسی اور طرف موڑ دیا ہے۔‘

شیئر: