Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ کے قریب کوئلے کی کان منہدم، 12 افراد ہلاک، آٹھ کو بچا لیا گیا

چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کا کہنا ہے کہ کان میں میتھین گیس بھر جانے کی وجہ سے دھماکہ ہوا (فوٹو: مائنز انسپکٹریٹ)
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلہ کان میں پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں مرنے والے کان کنوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ حادثہ منگل کی رات کو کوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ہرنائی کی سب تحصیل خوست کے علاقے زرد آلو میں جلات خان کول کممپنی کی کان میں پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’تقریباً ایک ہزار گہرائی میں میتھین گیس بھر جانے سے دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں کان منہدم ہو گئی اور وہاں کام کرنے والے 10 کان کن ملبے تلے دب گئے۔‘
چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق ’حادثے کے فوری بعد پھنسے ہوئے کان کنوں کو نکالنے کے لیے جانے والے مزید 10 کان کن بھی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہو کر اندر پھنس گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی کوئٹہ اور ہرنائی کے علاقے شاہرگ سے مائنز کی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور امدادی سرگرمیاں شروع کردیں۔
عبدالغنی کا کہنا تھا کہ کان میں بہت زیادہ گیس جمع تھی پہلے ایگزاسٹ پنکھوں کی مدد سے کان سے گیس نکالی گئی اس کے بعد امدادی ٹیمیں نیچے اتار کر اپنے ساتھیوں کو بچانے  کے لیے کان میں اترنے والے دس میں سے آٹھ کان کنوں کو زندہ بچا لیا گیا۔

’مرنے والوں کی میتیں آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئی ہیں‘ (فوٹو: مائنز انسپکٹریٹ)

’بچائے گئے کان کنوں کو نیم بے ہوشی کی حالت میں نکالا گیا جن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد بچائے گئے کان کنوں کی حالت سنبھل گئی ہے۔‘
چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق ’بدقسمتی سے ریسکیو کے لیے اندر جانے والے دو کان کنوں کو نہیں بچایا جا سکا، ان کی لاشیں آٹھ سو فٹ کی گہرائی سے نکال لی گئی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد ملبے تلے دبے ہوئے باقی 10 کان کنوں کی میتیں بھی نکال لی گئی ہیں۔
چیف انسپکٹر مائنز نے یہ بھی بتایا کہ ’مرنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین اور اچکزئی قبیلے سے ہےجن کی میتیں آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئی ہیں۔‘
علاقے کی ایک اور کوئلہ کان میں کام کرنےوالے کان کن کا کہنا ہے کہ مائنز اور پی ڈی ایم اے کی ریسکیو ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’موقع پر کوئی مناسب ریسکیو آلات اور بندوبست موجود نہیں تھا، اس لیے کان کن حفاظتی انتظامات کیے بغیر اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے کان میں اترے اور ان میں سے دو موت کا شکار ہوئے۔‘

چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق ’ریسکیو آپریشن مکمل کر کے کان کو سیل کردیا گیا ہے۔‘ (فوٹو: مائنز انسپکٹریٹ)

چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق ’ریسکیو آپریشن مکمل کر کے کان کو سیل کردیا گیا ہے اور حادثے کے حوالے سے تحقیقات بھی ہوں گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے سال بلوچستان میں کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں 68 کان کنوں کی موت واقع ہوئی۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان میں  کوئلہ کی کانوں میں حادثات معمول  ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق  کان  کے منہدم ہونے اورزہریلی گیسوں کے جمع ہونے سمیت مختلف وجوہ کے نتیجے میں پیش ہونے والے حادثات میں بلوچستان میں ہرسال اوسطاً 100 سے 200 کان کن ہلاک ہوجاتے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں کوئلے کے پچیس کروڑ ٹن سے زائد کے ذخائر موجود ہیں۔
بلوچستان کا پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر کی کوئلہ اینٹوں کے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں سے لے کر پاور پلانٹس تک کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔

ملبے تلے دبے ہوئے باقی 10 کان کنوں کی میتیں بھی نکال لی گئی ہیں (فوٹو: مائنز انسپکٹریٹ)

 کان کنی کے شعبے سے بلوچستان میں ستر ہزار سے زائد مزدور وابستہ ہیں ۔مزدور  تنظیموں کے مطابق کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث اب تک ہزاروں کان کن مختلف حادثات میں زندگی کھو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی ) نے نومبر 2022 میں بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں حقوق کی خلاف ورزیوں پر’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘جاری کی تھی  جس میں کان کنی سے ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق کان کنی کے قدیم طریقے، پرانی ٹیکنالوجی اور ناکافی حفاظتی آلات کے استعمال سے صوبے میں کوئلے کے کان کنوں کے لیے اس شعبے میں کام کرنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

شیئر: