Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ججوں کے خط کا معاملہ، چیف جسٹس اپنے اقدامات کے بعد کہاں کھڑے ہیں؟

فل کورٹ اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ نے صورتحال کو کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے سامنے آنے کے بعد سب نظریں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پر مرکوز تھیں۔
اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف جہاں ایک جانب ججز کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھی وہیں سوشل میڈیا پر دو مختلف الخیال گروہ متحرک ہو چکے تھے۔
تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے والے سوشل میڈیا کارکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہ آنے پر تنقید کر رہے تھے، جبکہ حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے حامی سمجھے جانے والے سوشل میڈیا صارفین اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ججوں نے یہ مسئلہ اٹھانے میں تاخیر بھی کی اور توہین عدالت کا اختیار حاصل ہونے کے باوجود اسے استعمال نہیں کیا۔
اس ساری صورت حال میں تقریباً دو روز تک حکومت کی جانب سے بھی مکمل خاموشی رہی۔ وزیر اطلاعات اور وزیر قانون سے اس بابت سوالات بھی ہوئے تاہم انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
ایک دلچسپ بات جو دیکھنے میں آرہی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے جن خفیہ ایجنسیوں پر الزامات عائد کیے ہیں ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کسی قسم کی کوئی بحث نہیں ہو رہی۔
اس غیرمعمولی صورت حال میں چیف جسٹس نے مسلسل دو روز فل کورٹ اجلاس منعقد کیا اور وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ بھی کیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم فل کورٹ اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے نے صورت حال کو کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے مسلسل دو روز فل کورٹ اجلاس منعقد کیا اور وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ بھی کیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

چیف جسٹس نے جس ترتیب کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور شکایت کنندہ ججز کے ساتھ ملاقات، فل کورٹ اجلاس کے ساتھ ساتھ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے صورتحال کو سنبھالا ہے، غیرجانبدار وکلا اسے بہترین حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حافظ احسان کھوکھر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ ایک غیرمعمولی صورتحال ہے کہ جب چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرح کی شکایت سننے کا قانونی فورم نہیں ہے اس لیے پہلے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو فل کورٹ اجلاس بلانا چاہیے تھا، اگر انہوں نے اجلاس نہیں بلایا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو توہین عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے تھا اور اس کے بعد بھی اگر انہوں نے خط لکھ دیا ہے تو ایسی صورت میں دو ہی آپشن بچتے تھے جن میں ایک (3) 184 کے تحت سپریم کورٹ میں کیس چلایا جاتا یا پھر انکوائری کمیشن تشکیل دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ’(3) 184 کے تحت تحقیقات کے لیے ٹی او آرز تشکیل نہیں دیے جا سکتے، اس لیے فل کورٹ میٹنگ میں یہ تجویز سامنے آئی کہ انکوائری کمیشن بنایا جائے اور اس کے لیے چیف جسٹس کو وزیراعظم سے ملاقات کرنے کا کہا گیا۔ چیف جسٹس نے ون اون ون ملاقات کے بجائے سینیئر ترین جج اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو ساتھ لے کر وزیراعظم سے ملاقات کر کے ساری صورتحال سامنے رکھی اور ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے پر اتفاق ہوا۔‘

چیف جسٹس نے جس طرح سے صورتحال کو سنبھالا ہے، غیرجانبدار وکلا اسے بہترین حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

حافظ احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ سیاسی ماحول میں سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور ٹرولنگ کی جاتی رہی لیکن فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ چیف جسٹس نے موجودہ صورتحال میں سرگرم آئینی کردار ادا کیا ہے اور تاریخ میں پہلی بار مسلسل دو دن فل کورٹ اجلاس بلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنقید کرنا آسان کام ہے لیکن جس فل کورٹ نے انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے اس نے تمام معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے، اور یقینی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا ہو گا، جس طرح کے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل نے مزید کہا کہ ماضی قریب میں عدلیہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال، مختلف فیصلوں اور ججز کے درمیان تقسیم کے باعث چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک خاص ماحول بنایا گیا ہے، لیکن چیف جسٹس نے اسلام اباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے بعد پیدا ہونے والے بحران میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی اور ایگزیکٹو کی مداخلت کے حوالے سے نہ صرف خود کو منوایا ہے بلکہ کئی کئی سال تک فل کورٹ اجلاس نہ بلانے کی روایت کو توڑتے ہوئے تمام صورتحال پر نہ صرف اپنے ساتھی ججز بلکہ ہائی کورٹ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لے کر اس قضیے کو حل کرنے کی راہ نکالی ہے۔

مسلم لیگ ن کے حامی سمجھے جانے والے سوشل میڈیا صارفین اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)

تو ہم کچھ وکلا کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کی ان تمام سرگرمیوں کو نشستن و گفتن و برخاستن (یعنی بیٹھیں، بات کی اور اٹھ گئے) قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ انتہائی سنگین صورتحال تھی جس کا الزام حکومتی اداروں پر تھا اور تحقیقات کے لیے حکومت کے پاس نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے کر تحقیقات کرنی چاہیے تھیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عارف چودری بھی ایسے ہی خیال کے حامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو معاملہ حکومتی کورٹ میں ڈالنے کی بجائے عملی طور پر ایجنسیوں کی عدلیہ میں مداخلت کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیےتھے۔
انہوں نے کہا کہ ’محض فل کورٹ بلا کر یا وزیراعظم کو بلا کر یہ یقین دہانی لینا کہ قانون سازی کی جائے گی جبکہ اس حوالے سے قانون پہلے ہی موجود ہے کہ خفیہ ایجنسیاں عدالتی امور میں قطعی طور پر مداخلت نہیں کر سکتیں۔‘
’چھ ججز کے خط پر ایکشن لیتے ہوئے اداروں کے سربراہان کو طلب کر کے ان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے تھی۔‘

شیئر: