Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خان یونس سے فوجی انخلا ’رفح پر حملے کی تیاری‘: اسرائیلی وزیر دفاع

نیتن یاہو نے اپنی کابینہ سے خطاب میں کہا کہ ’اسرائیل معاہدے کے لیے تیار ہے۔ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔‘ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل  کی فوج نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل کے خلاف حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں چھ ماہ تک شدید لڑائی کے بعد اتوار کو جنوبی غزہ کے خان یونس سے انخلا کیا۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا ہے کہ انخلا رفح کے شمال میں واقع خان یونس میں ’حماس کے عسکری فریم ورک کو مکمل طور پر ختم کرنے‘ کے بعد کیا گیا۔
اس علاقے میں 15 لاکھ سے زیادہ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ خان یونس سے فوجی انخلا ’رفح سمیت دیگر علاقوں میں مستقبل کے مشن کی تیاری کے لیے تھا۔‘
اسرائیل نے کہا کہ اس نے جنوبی غزہ سے مزید فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے جہاں اب صرف ایک بریگیڈ رہ گئی ہے۔
یہ فوجی انخلا ایسے وقت کیا گیا جب اسرائیل اور حماس نے چھ ماہ کے تنازعے میں ممکنہ جنگ بندی پر تازہ مذاکرات کے لیے ٹیمیں مصر بھیجی ہیں۔
خان یونس کے بڑے پیمانے پر تباہ ہونے والے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے فوجی دستوں کے نکل جانے کے بعد رفح اور دیگر علاقوں میں پناہ لینے والے بے گھر فلسطینی قافلوں کی شکل میں واپس شہر کی طرف چل پڑے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی گاڑیاں اتوار کو غزہ کی پٹی سے جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقے میں واپس چلی گئیں۔
خان یونس حماس کے غزہ کے سربراہ یحییٰ سنوار کا آبائی شہر ہے، جن پر اسرائیل 7 اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ ایک ’اہم فورس‘ محصور علاقے میں ایک اور جگہ موجود رہے گی جبکہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ’فتح سے ایک قدم دور ہے۔‘
نیتن یاہو نے اپنی کابینہ سے خطاب میں کہا کہ ’اسرائیل معاہدے کے لیے تیار ہے۔ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔‘
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں 1,170 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری سے 33 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

غزہ کے مختلف شہروں پر اسرائیلی بمباری سے بدترین تباہی ہوئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

اتوار کو جب قاہرہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے بات چیت دوبارہ ہو رہی تھی، نیتن یاہو نے کابینہ سے خطاب میں زور دیا کہ ’یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر جنگ بندی نہیں ہوگی۔‘
اسرائیل میں حکومت کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں پکڑے گئے یرغمالیون کے حامیوں کے علاوہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
اسرائیل کی فوج کے سربراہ نے کہا کہ ’غزہ میں جنگ جاری ہے اور ہم رُکنے سے بہت دور ہیں، یہ ایک طویل جنگ ہے جس کی شدت میں کمی بیشی ہوتی ہے۔‘

شیئر: