Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیلنڈرز کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ، ہم آخر کیلنڈرز استعمال کرتے ہی کیوں ہیں؟

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا ہر قاری روم کی قدیم سلطنت کے حکمران جولیئس سیزر کے بارے میں یقیناً کچھ نہ کچھ آگاہی ضرور رکھتا ہوگا۔
وہ قبل از مسیح عہد کے ان حکمرانوں میں سے ایک ہیں جن کی مثال عہد حاضر میں بھی دی جاتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جولیس سیزر ایک ایسے رومن جنرل اور حکمران تھے جنہوں نے رومن جمہوریہ کے آمریت کی جانب سفر کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے ابتدا میں 10 سال روم کا حکمران رہنے کا اعلان کیا اور ایک برس مکمل ہونے سے قبل ہی تاحیات حکمران رہنے کا اعلان کر دیا اور مختلف اصلاحات کرتے ہوئے ریٹائر ہونے والے سولجرز کو پراپرٹی سے نوازا۔
غریبوں میں ازسرنو زمین تقسیم کرنے کے علاوہ ان کے قرضے بھی معاف کیے۔
ممکن ہے آپ اس تاریخی حقیقت سے واقفیت رکھتے ہوں کہ جولیس سیزر سے نالاں ان کے 40 کے قریب سینیٹرز نے ان کو قتل کر دیا جس کے بعد خانہ جنگیوں کا ایک طویل دور شروع ہوا اور یوں رومن جمہوریہ سلطنت میں تبدیل ہو گئی۔
لیکن اس حقیقت سے شاید آپ ناواقف ہوں گے کہ یہ جولیس سیزر ہی تھے جنہوں نے 46 قبل از مسیح میں اصلاح شدہ رومن کیلنڈر متعارف کروایا جس میں ایک سال 365.25 دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ہر چار سال بعد لیپ کا سال آتا اور یوں ایک دن مکمل ہو جاتا۔
کیلنڈر ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے مطابق، جولین کیلنڈر 16 سو سال سے زیادہ عرصے تک دنیا کا سب سے بہتر اور معتبر کیلنڈر رہا۔
 تاہم یہ نہ ہی تاریخ کا پہلا اور نہ ہی آخری کیلنڈر تھا۔ چنانچہ اس وقت دنیا میں رائج کچھ اہم کیلنڈرز پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ ماضی میں کون سی تہذیبوں میں کیلنڈر رائج رہے اور وہ کون سے ارتقائی مدارج ہیں جنہیں طے کرنے کے بعد آج ہم جدید کیلنڈر استعمال کرنے کے قابل ہوئے۔
آپ یہ جان کر یقیناً حیران ہوں گے کہ قدیم تہذیبیں جیسا کہ سمیری، مصری اور مایان وغیرہ بھی کیلنڈر استعمال کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں عموماً قمری کیلنڈر استعمال ہوتے تھے کیوں کہ چاند کے مختلف مراحل کی پیمائش کرنا آسان تھا۔ سمیری ثقافت میں قمری دائرے کی بنیاد پر ہی سال کو 12 مہینوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

اس زمانے کے اہرام مصر کی تعمیر کے جادوئی راز سے تو پردہ اٹھ نہیں سکا مگر مصریوں  نے اس دور میں 12 مہینوں اور 265 دنوں پر مبنی کیلنڈر بنا لیا تھا اور ہر مہینے کے 30 دن تھے۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب سال مکمل ہونے کے بعد پانچ دن فالتو بچ جاتے جس کا حل یہ نکالا گیا کہ یہ پانچ دن اسی ایک سال میں شامل کر دیے جاتے مگر کسی مہینے کا حصہ نہ ہوتے۔ اس باب میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ اس کیلنڈر کی تشکیل میں مصریوں کی علم فلکیات میں مہارت نے اہم کردار ادا کیا۔
مایان تہذیب علم فلکیات میں اپنی مہارت کے باعث مشہور تھی جنہوں نے قمری اور شمسی نظام کو یکجا کرتے ہوئے ایک ایسا کیلنڈر بنایا جو ماضی کے کیلنڈروں سے بہت بہتر تھا۔ اس کیلنڈر کی تشکیل سے انسانیت نے اس باب میں اہم سنگ میل عبور کیا۔ مایان کینلڈر میں ہر سال میں 18 مہینے ہوتے اور ہر مہینے میں 20 دن ہوا کرتے تھے جب کہ اضافی پانچ دن اس میں الگ سے شامل کر لیے جاتے۔
جولین کیلنڈر کا ذکر ایک بار پھر ہو جائے جو شمسی اور قمری دونوں ہی نظاموں پر مشتمل تھا جس کے باعث بسااوقات اس کو موسموں سے ہم آہنگ کرنا مشکل ہوتا اور یہ استعمال میں بھی آسان نہ تھا۔
ان قدیم روایات سے جدید روایات کی جانب بڑھتے ہوئے یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ اس وقت دنیا کی مختلف تہذیبوں میں رائج کیلنڈر تین طرح کے ہیں جن میں شمسی، قمری اور شمسی قمری کیلنڈر شامل ہیں۔

گریگورین کیلنڈر:

گریگورین کیلنڈر اس وقت مغرب میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیلنڈر ہے۔ دنیا کی آبادی کا اگرچہ بڑا حصہ تاریخوں اور دنوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے اسی کیلنڈر پر انحصار کرتا ہے مگر لوگ اس بارے میں بہت زیادہ آگاہ نہیں کہ اس کیلنڈر کا موجد کون تھا یا یہ دوسرے کیلنڈرز سے کس طرح مختلف ہے؟
یہ کیلنڈر بنیادی طور پر پاپ گریگوری سیزدہم نے تخلیق کیا اور یہ انہی کے نام سے منسوب ہو کر گریگورین کیلنڈر کہلایا۔ یہ سال 1582 میں تشکیل پایا جس نے بتدریج جولین کیلنڈر کی جگہ لے لی جو اس سے قبل استعمال کیا جا رہا تھا۔ دونوں کیلنڈرز میں اگرچہ بہت زیادہ فرق نہیں ہے مگر گریگورین کیلنڈر وقت اور تاریخ کے حوالے سے نسبتاً زیادہ بہتر معلومات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ تاہم، یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ رجعت پسند مسیحی آج بھی جولین کیلنڈر ہی استعمال کرتے ہیں۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جولین اور گریگورین کیلنڈر سمیت اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 40 کیلنڈرز رائج ہیں جن میں عبرانی، ہجری، شاکا، چینی، ایرانی، جولین، نانک شاہی یا پنجابی کیلنڈرز زیادہ مستعمل ہیں۔

ہجری کیلنڈر

گریگورین کیلنڈر کے بعد ہجری کیلنڈر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیلنڈر ہے جسے اسلامی کیلنڈر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ ہجری سال کے بارہ ماہ ہوتے ہیں اور یہ 354 یا 355 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں یہ شمسی سال کے 365.25 دنوں سے 10 دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اسلامی کیلنڈر ہر سال 10 دن کم ہوجاتا ہے اور یوں 33 سال بعد ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ ہجری کیلنڈر کا آغاز محرم الحرام اور اختتام ذی الجہ پر ہوتا ہے۔  مسلمان ممالک میں ہجری سال مذہبی تہواروں کے لیے تو بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے تاہم دنیا کے اکثریتی مسلمان ممالک میں دیگر معمولات زندگی کے لیے گریگورین کیلنڈر ہی استعمال ہوتا ہے۔

عبرانی کیلنڈر

کیا آپ جانتے ہیں کہ عبرانی کیلنڈر دنیا میں مستعمل قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔  یہ ایک شمسی قمری کیلنڈر ہے۔ یہ قمری اس لیے ہے کہ اس کا ہر مہینہ چاند کی حرکت پر انحصار کرتا ہے اور شمسی اس لیے ہے کہ کیلنڈر مہینوں کے لیے زمین کے اس کے مدار کے گرد حرکت پر انحصار کرتا ہے۔
  ہر عبرانی مہینہ ہمیشہ 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے جس کا انحصار چاند کی زمین کے گرد گردش مکمل کرنے پر ہے اور جب کیلنڈر کا توازن خراب ہونے لگتا ہے تو عبرانی کیلنڈر میں ایک اور مہینہ شامل کر لیا جاتا ہے۔

شاکا سموت کیلنڈر

یہ انڈیا کا قومی کیلنڈر مانا جاتا ہے۔ یہ ایک قمری شمسی کیلنڈر ہے جو برصغیر کے اور بھی ملکوں میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ انڈونیشیا کے جزیروں بالی اور جاوا کے علاوہ فلپائن میں بھی اس کیلنڈر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
انڈین حکومت نے 1957 میں شاکا کیلنڈر کو ملک کے سرکاری کیلنڈر کے طور پر اختیار کیا جسے خبروں کی نشریات کے دوران اور حکومتی ابلاغ میں استعمال ہوتا ہے۔ شاکا مہینے کے 365 دن اور 12 مہینے ہوتے ہیں۔ گریگورین کیلنڈر کی طرح اس کا نیا سال چیت میں شروع ہوتا ہے (جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق مارچ کی 21 تاریخ بنتی ہے)۔

وکرم سموت

یہ بھی ہندوئوں میں استعمال کیا جانے والا کیلنڈر ہے جو نیپال اور کچھ انڈین ریاستوں میں وقت اور تاریخوں کے ریکارڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قمری مہینوں کے علاوہ فلکی اکائی کا استعمال کرتا ہے۔

ایرانی کیلنڈر

ایرانی کیلنڈر گزشتہ دو ہزار سال سے ایران میں تاریخوں اور دنوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران مختلف سیاسی، مذہبی اور موسمی تہواروں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ عہد حاضر میں یہ ایران کا سرکاری کیلنڈر ہے جس کا آغاز نوروز سے ہوتا ہے جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق، 21 مارچ کو ہوتا ہے۔

بڈھسٹ کیلنڈر

یہ کیلنڈر جنوبی مشرقی ایشیا کے ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد قدیم ہندو کیلنڈر پر ہے۔ یہ فلکی سال پر انحصار کرتا ہے، وہ وقت جو زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ تاہم، یہ دوسرے کیلنڈرز کی طرح وقت کی پیمائش کو درست رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یوں ہر صدی میں اس کا ایک دن کم ہو جاتا ہے۔

یہ اگرچہ سرکاری کیلنڈر کے طور پر تو استعمال نہیں کیا جاتا مگر بڈھسٹ کیلنڈر اہم تہواروں کے تعین کے لیے ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔

جاپانی کیلنڈر

1873 سے جاپانی کیلنڈر گریگورین کیلنڈر کے شمسی سال کو استعمال کر رہا ہے۔ کیلنڈر کی بنیاد تاریخ کے ایک مخصوص عہد پر ہوتی ہے اور یہ طریقہ کار اس نے چین سے مستعار لیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر حکمران کا اقتدار ایک نئے عہد کا نقطہ آغاز ہوا کرتا تھا۔ یہ کیلنڈر اگرچہ 701 عیسوی سے استعمال کیا جا رہا ہے تاہم سال 1873 سے قبل مختلف ادوار کا آغاز واقعات سے ہوتا تھا اور حکمرانوں کے دور اقتدار کے آغاز سے نہیں۔

چینی کیلنڈر

چینی کیلنڈر قمری شمسی نظام پر انحصار کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر مہینے کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب نئے چاند کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے۔ چین میں اگرچہ گریگورین کیلنڈر پر ہی انحصار کیا جاتا ہے مگر مختلف تہواروں کے لیے چینی کیلنڈر کا استعمال عام ہے۔

نانک شاہی کیلنڈر

نانک شاہی کیلنڈر سکھ مت کے پیروکار استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک شمسی کیلنڈر ہے۔ اس میں بارہ ماہ ہوتے ہیں جن کا تعین سکھ گوروئوں نے کیا ہے اور ان کا مقصد سال کے بارہ ماہ میں ہونے والی تبدیلیوں کا اظہار ہے۔

سال کا آغاز یکم چیت سے ہوتا ہے جو گریگورین کیلنڈر کے مطابق مارچ کی 14 تاریخ بنتی ہے۔

پنجابی کیلنڈر

یہ پنجاب کا تاریخی کیلنڈر ہے جو اس خطے کے مسلمان، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ پنجاب میں بہت سے تہوار اسی بکرمی کیلنڈر کو پیش نظر رکھتے ہوئے منائے جاتے ہیں۔ پنجاب کے نئے شمسی سال کا آغاز ویساکھ سے ہوتا ہے اور اس کیلنڈر کے بارہ مہینے موسموں کی بہت خوبصورتی سے ترجمانی کرتے ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ کیلنڈرز کا صدیوں پر محیط ارتقا انسان کی تہذیبی ترقی کا مظہر ہے۔ اس وقت اگرچہ دنیا بھر میں گریگورین کیلنڈر ہی استعمال کیا جا رہا ہے تاہم مختلف خطوں میں مستعمل مقامی کیلنڈرز کی اہمیت سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ وہ ان خطوں کی متنوع ثقافت کے عکاس ہیں جو اپنے تہوار اپنے اپنے کیلنڈر کے مطابق منانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

شیئر: