Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید سعید: اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

عرفان مرتضیٰ صاحب دیار غیر میں جا بسنے والے پاکستان کے ایک معروف شاعر ہیں۔
انھوں نے وہاں اپنے دیس کی عیدوں کو یاد کرتے ہوئے کچھ اس طرح اپنے خیالات کو منظوم کیا ہے،
اور عید جو آتی ہو گی یارو
کچھ مہماں آ جاتے ہوں گے
لوگ ہمارے گھر پر یارو
میٹھا کھانے آتے ہوں گے
دھوبی بھی آ جاتا ہو گا
سقہ بھی آ جاتا ہو گا
عیدی لینے والوں کا
اک میلہ سا لگ جاتا ہو گا
اب بھی ایسا ہوتا ہو گا؟
ذرا غور کیجیے، اگر آپ نے یہی کوئی 25-20 برس پہلے تک کے عید کے تہوار کو یاد رکھا ہے، تو اسے بہ آسانی سمجھ سکتے ہوں گے۔ جیسے عرفان مرتضیٰ نے عید پر مہمانوں کی آمد کے ساتھ کس طرح خصوصی طور پر ’دھوبی‘ اور ’سقے‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔
جس سے ہمیں خیال آتا ہے کہ کیسے ہماری زندگی کے یہ سارے چھوٹے چھوٹے اور اہم مدد گار اپنے دکھ سکھ ہم سے بہت سہولت سے کہہ دیتے تھے، کیسے ایک ڈاکیا عید کے روز 10 روپے کا ایک نوٹ لے کر خوش خوش ہمارے گھر سے لوٹتا تھا۔
ایسے ہی گھر گھر پانی لانے والے سقوں کا زمانہ اگرچہ اب باقی نہیں رہا، لیکن ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ دھوبی، ماسی، صفائی والی، اخبار والا یہ سب کیسے اپنے پورے حق سے عیدی لینے جمع ہوتے تھے۔
 اگر نہ بھی آئیں، تو گھر والے ان کے لیے عیدی کے نئے نئے روپے نکال کر الگ سے رکھ دیتے تھے کہ جب بھی آئیں گے لے جائیں گے۔
پھر ایک عید ہی پر کیا موقوف، ان کی زندگی بھر کے دکھ سکھ کی ذمہ داری لوگ خوشی خوشی اٹھاتے تھے۔

چھوٹی چھوٹی خوشیاں عید کی صبح ہماری مسرتوں کو مہمیز کر دیتی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کی کوئی دکھ بیماری ہے، کسی کی بچی کا شادی بیاہ ہے۔ الغرض ہماری مدد سے ان کی زندگی کی گاڑی بہت سہولت سے رواں دواں رہتی تھی۔ اور شاید ہمارے ذریعے سے کچھ ان کا حق بھی ادا ہو جاتا تھا، بہ نسبت آج کے ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے کہ جو کہ عادی بھکاری ہیں، جنھیں شاید مانگتے رہنے کی لت پڑ چکی ہے۔
سچ پوچھیے تو آج کے دور میں خیرات اور صلہ رحمی کے لیے ہمارا زیادہ حصہ یہی غیر مستحق لوگ لے جاتے ہیں، جب کہ ہماری اپنی زندگیوں کا حصہ رہنے والے ایسے افراد ہماری توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔
یہ ہمارے ارد گرد رونما ہونے والا ایک ایسا المیہ ہے کہ جس سے نہ صرف ہماری زندگیوں کو آسان بنانے والوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہو گئی ہیں، بلکہ ہم بھی شاید تہوار کی خوشیوں کا وہ لطف نہیں لے پاتے، جو ہماری مدد کے بعد ان کے چہرے سے پھوٹتی خوشی کی صورت میں ہمیں اطمینان کی صورت میں ملتا تھا۔
یہی تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں، جو عید کی صبح ہی کو ہماری مسرتوں کو مہمیز کر دیتی تھی۔

آج ہمارے تہوار پھیکے  پڑ گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

نماز عید کے بعد گھروں میں مبارک سلامت کے ساتھ ان سچی دعائیں دینے والوں کا سایہ ہوتا اور یہ خوشی ان کی نہیں، بلکہ فطری طور پر منعکس ہو کر ہمارے وجود میں سرائیت کر جاتی اور غیر محسوس طریقے سے ہماری عید کو مکمل کر دیتی تھی۔
آج ہمارے تہوار پھیکے ہیں، تو اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ذریعے سے ایسے لوگوں کی عید میں خوشیاں پہنچنی بند ہو گئی ہیں کہ جن کے وسیلے سے پھر ہمارے دل بھی شاد ہو جایا کرتے تھے، اس عید پر کوشش کیجیے کہ اگر آپ کے گھر کے ایسے مدد گاروں سے یہ رشتہ منقطع ہو گیا ہے، تو اسے بحال کیجیے۔ دودھ والا، ڈاکیا، اخبار والا، دھوبی، صفائی والا، کام والی وغیرہ کو دل سے کچھ عیدی دیجیے، چاہے وہ تقاضا نہ بھی کریں، پھر بھی انھیں تہوار کی مناسبت ہی سے عید کے قریب کچھ روپے ضرور دیجیے، اس سے ان کے دل سے جو دعائیں نکلیں گی اس کا اظہار آپ کو ان کے چہرے کی چمک سے دکھائی دے گا اور آپ مان جائیں گے کہ آپ کی مسرتوں میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

شیئر: