Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں شاپنگ مالز کی بھرمار، کیا تاریخی بازاروں کی رونقیں ماند پڑ گئیں؟

صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں نئے نئے شاپنگ مالز بننے کے باوجود قدیم تجارتی مرکز قصہ خوانی بازار کی رونقیں آج بھی قائم ہیں بلکہ عید کے دنوں میں رش مزید بڑھ جاتا ہے۔
قصہ خوانی بازار کو پشاور کا دل سمجھا جاتا ہے جو اپنی تاریخی حیثیت کے ساتھ ساتھ تجارت اور کاروبار کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس قدیم بازار میں گارمنٹس، جیولری، ہوزری، کاسمیٹکس، واسکٹ، پرفیوم، پشاوری چپل کے علاوہ چترالی پٹی کی مصنوعات کی مارکیٹیں بھی موجود ہیں۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی رمضان کے مہینے میں قصہ خوانی بازار میں خریداروں کی ریل پیل زیادہ رہی اور عید کی شاپنگ کے لیے بھی شہریوں نے یہیں کا رخ کیا۔
قصہ خوانی بازار کے صدر شیخ عبدالرزاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس بازار میں بچوں، خواتین اور مردوں کے استعمال کی ہر چیز دستیاب ہے اور یہاں ہر ایک کے لیے رسائی بھی آسان ہے
انہوں نے بتایا کہ قصہ خوانی اور اس کی قریبی مارکیٹ میں قیمتیں بھی نسبتاً کم ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ یہاں آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
قصہ خوانی بازار کے تاجر محمد اسلم نے بتایا کہ پشاوری چپل عید کی خریداری کا لازمی حصہ ہے جس کی ورائٹی اسی بازار میں میسر ہے۔ پشاوری چپل کی خریداری کے لیے پشاور کے علاوہ  مالاکنڈ اور ہزارہ سمیت اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہری بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
قصہ خوانی بازار کی بابا جی مارکیٹ میں بچوں اور خواتین کے ریڈی میڈ کپڑوں کا بڑا مرکز ہے جہاں سے پورے صوبے کو مال کی سپلائی ہوتی ہے۔
نئے شاپنگ مالز میں خریداری کو کیوں پسند نہیں کیا جاتا ؟
پشاور میں نئی تعمیر ہونے والی بیشتر مارکیٹیں اور شاپنگ پلازے مرکزی شہر سے باہر ہیں جن میں یونیورسٹی ٹاؤن، رنگ روڈ کے علاقے شامل ہیں۔ ان شاپنگ مالز میں مخصوص خریدار جاتے ہین جن کے پاس گاڑی کی سہولت ہے۔
پشاور کے رہائشیوں کے خیال میں شاپنگ مالز میں آنے جانے میں وقت لگتا ہے اور پارکنگ کا بھی بہت مسئلہ ہے جبکہ معروف برینڈز کی دکانیں تو ہیں لیکن قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔

پشاور کے شہری شاپنگ کے لیے آج بھی قصہ خوانی بازار کا رخ کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

صدر کے رہائشی خان ذیب کے مطابق اندرون شہر میں عید خریداری کا اپنا مزہ ہے، لوگ خریداری کے ساتھ ساتھ بازار میں دستیاب خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
’قصہ خوانی اور گھنٹہ گھر کے تکے، مغز کڑاہی، کابلی پلاؤ اور لسی کے علاوہ ہر چیز دستیاب ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اندرون شہر میں مینہ بازار اور شاہین بازار خواتین پروڈکٹس کے لیے معروف ترین بازار ہیں اور حیات آباد کی رہائشی خواتین بھی انہی بازاروں میں شاپنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔
چترالی بازار کے صدر رزاق خان کا کہنا ہے کہ اندرون شہر میں ثقافتی مصنوعات کی پرانی مارکیٹ آج بھی خریداروں کے لیے اہمیت کی حامل جگہ ہے۔ یہاں تیار ہونے والے پروڈکس کسی بھی شاپنگ پلازوں میں موجود نہیں اور اگر کہیں دستیاب ہوں بھی تو قیمت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان بازاروں میں سب سے زیادہ بم دھماکے ہوئے مگر اس کے باوجود یہاں کی رونقیں ماند نہ پڑسکیں بلکہ لوگوں کا رش ہر سال بڑھ رہا ہے۔
تاریخی بازاروں کی بحالی کا منصوبہ
قدیم بازار قصہ خوانی اور اس سے منسلک تاریخی عمارتوں کی عظمت کی بحالی کے لیے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بازار کی عمارتوں اور دکانوں کی مرمت اور تزین وآرائش کی جائے گی جبکہ پارکنگ کے لیے بھی سڑکوں کو کشادہ کیا جائے گا۔

پشاوری چپل کی خریداری کے لیے دیگر شہروں سے لوگ قصہ خوانی بازار آتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر لطف الرحمان نے مؤقف اپنایا کہ ہیریٹج ٹریل کی طرز پر اس بازار کی خوبصورتی کو بحال کیا جا رہا ہے جس میں دکانوں کے آگے تجاوزات کو ختم کرکے فٹ پاتھ کو کشادہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کے غیر ضروری کھمبوں کو بھی زیر زمین کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ قدیمی بازوروں کی بحالی کا منصوبہ اپریل کے مہینے میں ہی مکمل ہو جائے گا۔

شیئر: