Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کا قتل: ’بیوی سے زندگی کی بھیک مانگتا رہا‘

پولیس کے مطابق قنوت نے اپنے شوہر کو فروری کے وسط میں پاکستان بھیج دیا تھا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
رات کے تقریباً سوا ایک بجے وہ گلی کا موڑ مڑا تو اس وقت اس کے کان سے فون لگا ہوا تھا۔ کینیڈا میں اپنے بھائی سے بات کرنے میں وہ اتنا مگن تھا کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ موت اس کا انتظار کر رہی ہے۔
اس نوجوان کا نام علی رضا تھا اور وہ فروری کے وسط میں کینیڈا سے پاکستان آئے تھے۔ یہ تین مارچ کا واقعہ ہے۔ جس گلی کی طرف وہ مڑے یہ لاہور کے علاقے سوڈیوال کے بازار کی گلی تھی جہاں ان کے سسرال کا گھر تھا۔
تھانہ نواں کوٹ کے انچارج انویسٹی گیشن راشد محمود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس حوالے سے بتایا کہ ’وہ کینیڈا میں موجود اپنے بھائی سے فون پر بات کر رہا تھا اور رات کے سوا ایک بجے کا ٹائم تھا۔ اس دوران ہی اس کی بیوی کی فون کالز بھی آ رہی تھیں۔ جو اسے مسلسل گھر جلدی آنے کا کہی رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں کھانے والا شاپنگ بیگ تھا جس میں وہ اپنی بیوی کے لیے کھانا لا رہا تھا۔‘
’اچانک اس کے سامنے تین لوگ آ گئے جن میں سے ایک اس کی بیوی قنوت تھی جبکہ باقی دو میں سے ایک نے اس پر پستول تانا ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب اس نے اپنی بیوی سے اپنی زندگی کی بھیک مانگی اور زمین پر بیٹھ گیا۔ لیکن اس کی التجا کچھ کام نہ آئی اور گولی چلا دی گئی۔‘

کہانی ہے کیا؟

پولیس کے مطابق علی رضا کا تعلق سانگلہ ہل سے تھا اور وہ اپنے خاندان سمیت کینیڈا میں رہتے تھے۔
پانچ برس قبل انہوں نے پاکستان میں لاہور کی رہائشی قنوت سے کی تھی۔ ان کے بطن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ سنہ 2021 میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہو گئیں۔
قنوت کا تعلق لاہور کے علاقے سوڈیوال سے ہے۔ ان کے والد کا سگریٹ پان کا کھوکھا ہے۔ انہوں نے سوڈیوال کا اپنا آبائی گھر کرائے پر دے رکھا تھا جبکہ خود کرائے کے مکان میں وحدت روڈ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔
اس واقعے سے چند روز قبل قنوت کے والدین اپنے آبائی گھر میں دوبارہ شفٹ ہو گئے تھے۔ تھانہ نواں کوٹ کے انچارج انویسٹی گیشن راشد محمود نے اس کہانی کی مزید پرتیں کھولتے ہوئے بتایا کہ ’قنوت کی بچپن سے ہی اپنے کلاس فیلو دوست عمیر قریشی سے گہری دوستی تھی۔ یہ ساتویں آٹھویں جماعت میں گلشن راوی کی ایک نجی اکیڈمی میں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور تب سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ کسی وجہ سے ان آپس میں شادی نہ ہو سکی اور قنوت شادی کر کے کینیڈا چلی گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وہاں تین برسوں میں ہی اسے (قنوت کو) پی آر کارڈ مل گیا۔ اس دوران وہ عمیر قریشی سے مسلسل رابطے میں تھی اور وہاں سے اسے تحائف بھیجتی تھی۔ پی آر کارڈ بننے کے بعد ایک نئی صورت حال جنم لیتی ہے۔ جب اس نے عمیر قریشی کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت اس نے اپنے شوہر کو اکیلے پاکستان بھیجا۔‘

ایک ہفتے تک جب عمیر قریشی اور اس کا دوست علی رضا کو قتل نہ کر سکے تو پھر قنوت نے کینیڈا سے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پولیس کے پاس موجود شواہد کے مطابق قنوت نے اپنے شوہر کا ون وے ٹکٹ کینیڈا میں بیٹھ کر لاہور میں ایک زبیر نامی نوجوان سے کروایا اور فروری کے وسط میں اسے پاکستان بھیج دیا۔
ایک ہفتے تک جب عمیر قریشی اور اس کا دوست علی رضا کو قتل نہ کر سکے تو پھر قنوت نے خود پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔

پولیس معاملے کی تہہ تک کیسے پہنچی؟

قتل کی واردات سائلنسر لگے پستول سے کی گئی اور اس کے بعد قنوت تھوڑے ہی فاصلے پر واقع اپنے گھر چلی گئی۔ عمیر قریشی اور اس کا دوست مصطفی قیصر مقتول کا فون لے کر فرار ہوگئے۔ اس واقعے کو سٹریٹ کرائم بنانے کی کوشش کی گئی۔
ایس پی انویسٹی گیشن اقبال ٹاون مغیث احمد ہاشمی کے مطابق سب سے پہلے پولیس نے پورے علاقے کے سی سی ٹی وی کیمرے دیکھے۔
قتل سے اگلے روز اس کی ایف آئی آر مقتول کے والد مظفر شیخ کی مدعیت میں درج ہوئی جو اتفاق اسے انہی دنوں اپنے آبائی علاقے سانگلہ ہل آئے ہوئے تھے۔ اور اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ ادا کرنے ایک دو روز میں سعودی عرب جا رہے تھے۔ جہاں سے انہوں نے کینیڈا روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے ایف آئی آر کی درخواست میں اپنے بیٹے کے قتل میں بہو کے ملوث ہونے کا بھی اظہار کیا تھا تاہم پولیس کسی ٹھوس ثبوت کے انتظار میں تھی۔
سی سی ٹی وی کیمروں میں قتل کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے دو موٹر سائیکل سوار نظر آئے جو کیمرے کو دیکھ کر چہرہ چھپا رہے تھے۔

ایس پی انویسٹی گیشن اقبال ٹاون مغیث احمد ہاشمی کے مطابق سب سے پہلے پولیس نے پورے علاقے کے سی سی ٹی وی کیمرے دیکھے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

راشد محمود کہتے ہیں کہ ’مجھے اسی وقت پہلا شک گزرا کہ یہ لوگ اسی علاقے کے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے کہاں کہاں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے قنوت اور ان کی والدہ کا کال ڈیٹا نکلوایا۔ تو قتل سے آدھا گھنٹہ پہلے والدہ کے نمبر سے ایک نمبر پر کال ہوئی تھی۔‘
’ہم نے اس نمبر کا ڈیٹا نکالا تو وہ 14 سیکنڈ کی کال تھی پھر وہ نمبر بند ہو گیا اور 24 گھنٹے کے بعد دوبارہ آن ہوا، اس سے 16 سیکنڈ قنوت کی والدہ کے نمبر پر بات ہوئی۔ جب قنوت کے پاکستان پہنچنے کا ریکارڈ نکلوایا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اس کے شوہر کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ آ رہی ہے اور دو دن کے لیے وہ گلبرگ میں ایک فور سٹار ہوٹل میں ٹھہری۔ وہاں جو نمبر دیا گیا تھا وہ وہی نمبر تھا۔ جب ہوٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی تو عمیر قریشی اور قنوت کو اکھٹے لابی لفٹ میں جاتے دیکھا گیا۔‘
ایک ہفتے میں پولیس کیس کی کافی گتھیاں سلجھا چکی تھی۔ مصطفیٰ قیصر کو گرفتار بھی کر چکی تھی۔ 20 مارچ کو عمیر قریشی کی گرفتاری کے بعد قنوت کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

شیئر: