Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ افراد کا معاملہ، ’حکومتی اداروں کے ملوث ہونے کا الزام یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا‘

وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر کمیٹی ازسر نو تشکیل دے رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومتی اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
منگل کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں کمیٹی ازسر نو تشکیل دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی سنجیدگی میں کمی نہیں ہے۔ یہ معاملہ چار دہائیوں پر محیط ہے جو راتوں رات حل نہیں ہو سکتا۔
’اگر آپ بات کریں کہ شاید یہ جو حکومتی ادارے ہیں، یہ ملوث ہیں تو اس کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا آج تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے آیا؟ تو اس کا جواب جو میں رپورٹ میں دیکھ رہا تھا، کیونکہ میں کمیٹی میں تھا، تو وہ نفی میں تھا۔‘
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ 10 ہزار 200 سے زیادہ کیسز لاپتہ افراد کے کمیشن میں گئے، تقریباً آٹھ ہزار کیسز حل طلب تھے جو حل ہو گئے اور 23 فیصد زیر التوا ہے اور وہ اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اتحادی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ معاملہ تعطل کا شکار ہوا تھا تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر کام شروع کیا جا رہا ہے  اور کمیٹی کو دوبارہ ازسرنو تشکیل دے رہے ہیں جس میں پارلیمانی اراکین موجود ہوں گے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئٹہ میں بھی کام کیا اور سٹیک ہولڈرز سے بھی ملے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اتنا آسان نہیں جس میں بہت ساری جہتیں ہیں۔ ’اس معاملے کا قانون کے ساتھ ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر سیاسی حل بھی نکالنا ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں لاپتہ افراد ملوث پائے گئے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص پر الزام ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔

شیئر: