Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نجد کے تاریخی قریہ ’مرات‘ پر سعودی محقق کی دلچسپ کتاب

شاہ عبدالعزیز نے ریاض سے مکہ کا سفر کیا تو پہلا سرکاری قیام مرات کا علاقہ تھا۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب کے وسط میں نجد کے قدیم ترین شہروں کے درمیان ایک قریہ مرات ریاض کے الوشم ریجن میں واقع ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی محقق عبداللہ الدویحی نے اپنی کتاب ’لمحات من تاریخ مرات‘ میں اس علاقے کی دلچسپ تاریخی حیثیت بیان کی ہے۔
یہ کتاب جو عربی زبان میں 2012 میں پہلی بار شائع ہوئی، مملکت کی تاریخ میں دلچسپی لینے والوں کے لیے نہایت موزوں ہے۔
عبداللہ الدویحی نے 700 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں قصبے کی جغرافیائی اہمیت اور سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کے ساتھ صدیوں پرانی حکمرانی کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔  
تاریخی کتاب میں حجاج کے قافلوں کے راستے میں مرات کی اہمیت، علاقے کی میراث، مساجد، کھیل اور ثقافت، آثار قدیمہ کے مقامات اور معاشرے کے دیگرطبقوں کا بھی ذکر ہے۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں ریاض کے شمال مغرب میں الوشم ریجن میں واقع مرات گورنریٹ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

تاریخی کتاب میں مقامی اور غیر ملکی مسافروں کے تجربات کا ذکر شامل ہے۔ فوٹو عرب نیوز

جغرافیائی اعتبار سے مرات کے جنوب میں القویہ اور درمہ، شمال میں شقرہ، مشرق میں ثادق اور حریملاء اور مغرب میں الدوادمی کے علاقے ہیں۔
انتظامی لحاظ سے ریاض ریجن سے وابستہ مرات کا علاقہ سرکاری سہولیات اور نجی اداروں کے حوالے سے کئی دیہاتوں اور بستیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
کتاب میں پیش کیے گئے مشہور قدرتی مقامات میں غدیر کومیت کا علاقہ شامل ہے جہاں بارشوں کے موسم میں سیلاب کا پانی جمع ہوتا ہے۔
اس علاقے کا نام قریبی جبل کومیت کے نام پر رکھا گیا ہے جو محل وقوع کے لیے جانا جاتا ہے، جہاں سے قریبی علاقے کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
سعودی محقق الدویحی نے مرات کے ماضی کو اجاگر کرتے ہوئے علاقے میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے منسوب العروسہ اور الولیدی کنویں کے کھنڈرات جیسے مقامات کو بھی دریافت کیا ہے۔

کتاب میں مٹی سے بتے قدیم محلوں کی باقیات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فوٹو فاروق فوٹوگرافی

تاریخ کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ نے ال یمامہ کے علاقے میں کفار سے معرکے کے لیے سفر کے دوران مرات کے راستے میں یہ کنویں کھدوائے تھے۔
سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود نے ریاض سے مکہ کا سفر کیا تو ان کا پہلا سرکاری قیام بھی مرات کےعلاقے میں تھا۔
مرات کا علاقہ خاص طور پر حج کے موسم میں گزرگاہ کے دونوں اطراف خیموں، دکانداروں اور خریداروں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔
تاریخی کتاب میں مرات کے علاقے سے گزرنے والے کئی مقامی اور غیرملکی مسافروں کے تجربات کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔ ان مسافروں میں جارج فورسٹر سیڈلیئر، برطانوی سیاح ہیری فلبی، امریکی ماہر ارضیات تھامس سی بارگر، امین الریحانی، یوسف یاسین اور احمد الریحانی شامل ہیں۔

سعودی محقق نے علاقے کی دلچسپ تاریخی حیثیت بیان کی ہے۔ فوٹو سعودی وزٹ

کتاب کی قابل ذکر خصوصیات میں شامل ’مرات‘ کے تعمیراتی ورثے کی تلاش ہے، جس میں مٹی کی اینٹوں کے قدیم محلوں کی باقیات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
مرات کی فصیل کے اندر محلوں میں باب النقیب، زبارہ، جنیب، الحفصیہ، بانبن، حیات حسین، الشوریقی، شریعت، سبیطہ، قارہ، سویل اور النقبہ شامل ہیں۔
شہر کی فصیل کے باہر القصیبہ، المریبہ، الجودی، باب النیفیہ، قبیبہ، سویدان، الحلیلہ، باب البر اور التویلہ کے علاقے ہیں۔
 

شیئر: