Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ تفتان رُوٹ پر سکیورٹی کی سخت شرائط، ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال

نوشکی واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے لیے نئی شرائط عائد کی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان حکومت نے کوئٹہ اور ایران کے سرحدی شہروں کے درمیان سفر کرنے والے مسافروں، ٹرانسپورٹرز اور قومی شاہراؤں کے لیے نئے سکیورٹی پلان پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔
دوسری جانب مسافر بس مالکان نے پابندیوں اور نئی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہڑتال شروع کردی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ چھ روز سے کوئٹہ سے تفتان، دالبندین، چاغی اور ماشکیل تک بس سروس معطل ہے۔
حکام کے مطابق ’نیا سکیورٹی پلان یا نئے سکیورٹی ایس او پیز 12 اپریل کو بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو بس سے اُتار کر قتل کیے جانے کے بعد لاگو کیے گئے ہیں۔‘
وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے مسافروں اور عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جہاں ضرورت ہوگی چیک پوسٹیں بنائی جائیں گی۔ 600 کلومیٹر رُوٹ پر ایک دو چیک پوسٹوں سے کام نہیں چل سکتا۔‘
’کوئٹہ کو نوشکی اور تفتان سے ملانے والی قومی شاہراہ پر نئی چیک پوسٹوں کے قیام کے ساتھ ساتھ مسافر بسوں کو قافلے کی صورت میں روانہ کیا جائے گا تاکہ ان کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’ایران جانے والے زائرین ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے پہلے سے ایس او پیز بنائے گئے ہے۔‘
ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ ’انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر زائرین کے انفرادی طور پر سفر کرنے پر پابندی ہے لیکن مسافر بس مالکان اِس کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔‘
کوئٹہ اور تفتان کے درمیان بسیں چلانے والے ٹرانسپورٹرز کا موقف ہے کہ ’حکومت نے اس کے ساتھ ہمارے اوپر بعض دیگر سخت شرائط بھی عائد کر دی ہیں۔‘
’ان شرائط کے تحت رات کے اوقات میں سفر، کوئٹہ اور تفتان کے بس اڈوں سے روانگی کے بعد راستے سے کسی بھی سواری کو بس میں بٹھانے اور بلوچستان کے سوا کسی  دوسرے صوبے کا شناختی کارڈ یا دستاویزات رکھنے والوں کو لے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔‘


ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ’ہر مسافر بس میں نجی محافظ تعینات کرنے کی شرط بھی رکھی گئی ہے جس کے لیے اسلحے کی خریداری اور تنخواہ کے اخراجات بھی ٹرانسپورٹرزکو ادا کرنا ہوں گے۔‘
آل کوئٹہ تفتان کوچز ٹرانسپورٹ یونین کے صدر حاجی ملک شاہ جمالدینی کے مطابق ’حکومت نے امن وامان کو جواز بنا کر یک طرفہ اور انتہائی سخت شرائط لاگو کی ہیں جن پر عمل درآمد کرنا مشکل اور پریشانی کا باعث ہے۔‘
’کوئٹہ سے دالبندین، چاغی، ماشکیل، سیندک اور تفتان تک جانے والے راستوں پر مقامی آبادی بہت کم ہے جس کی وجہ سے مقامی سواریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا سارا دارومدار ایرانی سرحد، ایران و دیگرسے ممالک آنے جانے والے تاجروں اور سیاحوں پر ہے لیکن حکومت نے انہیں بسوں میں سوار کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔‘
حاجی ملک شاہ جمالدینی کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں کہیں سکیورٹی کے نام پر چیکنگ کی جاتی ہے تو کہیں اینٹی سمگلنگ کے نام پر روکا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جگہ جگہ اور بار بار چیکنگ کی وجہ سے سفر کا دورانیہ بہت بڑھ گیا ہے، مسافر بھی تنگ آ جاتے ہیں اور رات کے اوقات میں بسیں چلانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔‘

وزیر داخلہ بلوچستان کا کہنا ہے کہ ’جہاں ضرورت ہوگی چیک پوسٹیں بنائی جائیں گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے منگل کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیک پوسٹوں کے قیام سے متعلق سوال پر کہا کہ ’دہشت گردوں سے لڑنے والی فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کرکے اُن کی چیک پوسٹیں ختم کرائی گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ شاہراؤں پر فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ ہم مضبوط سکیورٹی پلان بنائیں گے اور جہاں ضرورت ہوگی نئی چیک پوسٹیں قائم کی جائیں گی۔‘
کوئٹہ اور ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان کے درمیان درجنوں بسیں چلتی ہیں۔ ایران جانے اور آنے والے زائرین، تاجر، طلبہ اور مزدوروں سمیت روزانہ سینکڑوں افراد ان میں سفر کرتے ہیں۔ان بسوں کو سمگل شدہ یا تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے مقامی تاجروں کو خوردنی اور بعض دیگر ضرورت کی اشیا ایران لانے اور لے جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اب حکومت نے چھوٹے پیمانے پر سامان لانے اور لے جانے پر بھی قدغن لگا دی ہے۔‘
آل کوئٹہ تفتان کوچز ٹرانسپورٹ یونین کے صدر ملک شاہ جمالدینی نے مزید بتایا کہ ’نئی سخت شرائط کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کے لیے بسیں چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔‘
’ہم امن وامان کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں، حکومت امن عامہ کے لیے اقدامات ضرور کرے اس حوالے سے ہم تعاون کے لیے تیار ہیں، جبکہ شاہراؤں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا گشت بڑھایا جائے۔‘

شیئر: