Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ اکنامک فورم: علاقائی تنازعات عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ، سعودی وزیر خزانہ

سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان نے ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے دو روزہ اجلاس میں ایک پینل کے شرکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ غزہ کی جنگ اور یوکرین تنازع جیسے جیوپولیٹیکل تنازعات عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق پینل سے خطاب میں سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا کہ ’جیوپولیٹیکل خطرات میں بدقسمتی سے کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے، اگر آپ عالمی معیشت کو دیکھیں تو یہ آج کا ممکنہ طور پر سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ جیوپولیٹیکل تنازعات کی وجہ سے دیگر عوامل بھی معیشتوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے ہم جانوں کا ضیاع دیکھ رہے ہیں۔ چاہے وہ یوکرین ہو یا فلسطین، شہریوں کی زندگیاں اہم ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے مزید کہا ’ٹھنڈے دماغ والے ممالک اور رہنماؤں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ کشیدگی میں کمی لائیں۔‘
انہوں نے زور دیا کہ کئی سالوں سے سعودی عرب کا یہ ’خاص مقصد ہے کہ خطے میں کشیدگی کو کم کیا جائے۔‘
’خطے کو اپنے لوگوں، اس کی ترقی اور معیشت پر توجہ دینا ہوگی بجائے اس کے کہ سیاست اور تنازعات پر توجہ مرکوز کریں۔‘
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں 1170 کی موت واقع ہوئی جبکہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 34 ہزار 388 افراد غزہ میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے ایک علیحدہ پینل سے خطاب میں کہا کہ ’سات اکتوبر کے بعد غزہ میں ایک لاکھ 10 ہزار افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور 75 فیصد علاقہ اسرائیل کی فوجی کارروائی میں تباہ ہوا۔‘
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’غزہ میں جو ہوا وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی یا دیگر یورپی ممالک میں نہیں ہوا۔ غزہ میں لڑائی فوری رکنی چاہیے اور ہم نقل مکانی کے منصوبوں کے خلاف خبردار کر رہے ہیں۔‘

سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا کہ جیوپولیٹیکل تنازعات عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ فوٹو: عرب نیوز

سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے مزید کہا کہ ’جیوپولیٹکل سازشیں جو عالمی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہیں ان میں پروٹیکشنیزم، فریگمینٹیشن اور معیشت کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے تجارت اور ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کے مقاصد کو حاصل کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو ان معاملات سے نمٹتے ہوئے ہوشیار رہنا پڑے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’معاشی منصوبہ بندی کرتے ہوئے تبدیلی لانا یا نئے حالات کے مطابق اسے ایڈجسٹ کرنا درست (اقدام) ہے اور میں سب کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ کو سعودی وژن 2030 کی طرح طویل المدتی منصوبے کی ضرورت ہے، اور عمل درآمد کے لیے پرعزم رہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ایڈجسٹ کرتے رہیں۔‘
’اس سے قطع نظر کہ آج کیا ہو رہا ہے، مستقبل میں آپ کو اپنے لوگوں اور ہیومن کیپیتل پر ہی توجہ مرکوز کرنا ہو گی جو انتہائی اہم ہے۔‘
وزیر خزانہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب اور خطے کے پاس ایسا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں لیکن ایسے بہت سے ممالک موجود ہیں جن کے لیے اپنے لوگوں کو بہترین تعلیم اور صحت فراہم کرنا مشکل ہے۔‘
92 ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ہزار رہنما ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے ریاض میں موجود ہیں۔

شیئر: