Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ستیہ جیت رے: ہدایتکار جنہوں نے ڈاکو گبر سنگھ کو نواب واجد علی شاہ بنا دیا

1949 میں ستیہ رے کی شادی بجویا داس سے ہوئی۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)
اگر انڈیا میں کسی سے یہ پوچھا جائے کہ ملک کا سب سے بڑا فلم ہدایتکار کون ہے تو فلم کے بڑے بڑے ناموں سے لے کر فلم کا شوق رکھنے والا ایک عام آدمی بھی ستیہ جیت رے کا نام لے گا۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک ہی مکمل ہندی اردو فلم بنائی اور ایسی فلم بنائی کہ اسے انڈیا کی جانب سے اکیڈمی ایوارڈ کے غیر ملکی فلم زمرے میں شامل ہونے کے لیے بھیجا گیا۔
یہ فلم اردو ہندی کے معروف فکشن نگار پریم چند کی کہانی شطرنج کے کھلاڑی پر مبنی تھی اور اسی نام سے 1977 میں ریلیز ہوئی جبکہ بعد میں یہ انگریزی زبان میں ’دی چیس پلیئر‘ کے نام سے بھی ریلیز ہوئی۔
ستیہ جیت رے کے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی موت سے قبل انھیں انڈیا کے سب سے بڑے شہری ایوارڈ ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا جب کہ اسی سال انھیں آسکر کے گرانقدر اعزازی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
وہ چارلی چیپلن کے بعد پہلی فلم شخصیت ہیں جنھیں آکسفورد یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی ہے۔ دنیا بھر کے آج تک اہم ترین فلم ساز اور ہدایت کار میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
ہندی اردو میں ایک ہی فلم بنانے کی وجہ
ستیہ جیت رے کو لوگ پیار سے مانک دا کہتے تھے۔ آج ہم ان کا تذکرہ اس لیے کر رہے ہیں کہ آج سے کوئی 103 سال قبل آج ہی کے دن انھوں نے اس جہان فانی میں آنکھیں کھولی تھیں اور ایسی آنکھ کھولی تھی جو ایسی چیزیں دیکھ سکتی تھیں جو اکثر دوسرے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔
وہ اپنے فن کے ماہر تھے لیکن انھیں انگریزی اور بنگلہ زبان کے سوا دوسری کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جس چیز کو وہ خود نہ سمجھ سکیں اسے وہ دوسروں کو کس طرح پیش کر سکتے ہیں۔
جب انھوں نے ہندی میں فلم بنانے کا سوچا اس وقت تک وہ اپنی شہرت کی بلندیوں پر اپنی بنگالی فلموں کی وجہ سے تھے اور روس، برطانیہ، فرانس اور امریکہ سمیت ساری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

ستیہ رے نے فلم میں واجد علی شاہ کا کردار ادا کرنے والا ملنے کے بعد ہی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ (فوٹو:فیس بک)

وہ فلم کی باریکیوں پر پوری نظر رکھتے تھے چنانچہ ان کے ذہن میں اگر پریم چند کی کہانی شطرنج کے کھلاڑی پر فلم بنانے کا خیال بھی رہا ہوگا تو اس پر انھوں نے اس وقت تک کام شروع نہیں کیا جب تک کہ انھیں اس فلم کا ایک کردار نہ مل گیا۔
کہتے ہیں کہ شاید انھوں نے فلم میں واجد علی شاہ کا کردار ادا کرنے والا ملنے کے بعد ہی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔
انڈیا کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘1975 میں ریلیز ہوئی تھی۔ انھوں نے ایک دن گبر سنگھ یعنی امجد خان کی ایک تصویر اٹھائی اور اس کے ارد گرد سکیچ تیار کرنے لگے۔ انھوں نے اس تصویر کو موتیوں کا ہار پہنایا اور اس کے خدوخال درست کیے سر پر دو پلی ٹوپی رکھی اور پھر ہر زاویے سے اس کا جائزہ لیا۔
کہتے ہیں کہ امجد خان کی اس تصویر کو دیکھنے والے نے دیکھتے کہا کہ ’یہ تو جان عالم‘ نواب واجد علی شاہ ہیں۔ یعنی ستیہ جیت رے نے فلم شعلے کے ڈاکو گبر سنگھ کو اٹھا کر اودھ کے نواب واجد علی شاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔
اگر چہ اس فلم میں مرکزی کردار سنجیو کمار اور سعید جعفری نے میر اور مرزا کے روپ میں ادا کیا لیکن یہ فلم غدر سے قبل اودھ کی ایک شام پر مبنی ہے۔
اس فلم کی کہانی پر سکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھنے کے لیے بھی انھوں نے بڑے بڑے ناموں پر غور کیا۔ اس وقت اردو کے معروف سکرپٹ رائٹرز میں راجندر سنگھ بیدی، گلزار، کیفی اعظمی وغیرہ تھے۔ انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اس فلم کی سکرپٹ اور مکالمے بیدی یا گلزار سے لکھوائیں جب کہ شبانہ اعظمی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ان کے والد سے بہتر کوئی اور نہیں۔
شبانہ اعظمی نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے اور مرزا کی بیوی خورشید بنی ہیں۔
ستیہ جیت رے نے بیدی اور گلزار کے ناموں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ دونوں پنجاب سے آتے ہیں اور وہ لکھنؤ جو اودھ کا پایہ تخت تھا کی نزاکت کو اس کی باریکیوں کے ساتھ برتنے سے قاصر رہیں گے جبکہ انھوں نے کیفی اعظمی سے ایک ملاقات بھی کی لیکن بات آگے اس لیے نہ بڑھ سکی کہ کیفی کو اردو کے علاوہ اور کسی زبان پر عبور نہیں تھا۔

جاوید صدیقی بتاتے ہیں کہ انھوں نے پہلے تمام مکالمے انگریزی میں ترجمہ کرائے اور پھر بنگالی میں۔ 

پھر انھوں نے ایک نوجوان مصنف جاوید صدیقی کو بلایا اور یہ کام ان کے حوالے کیا۔ جاوید صدیقی بتاتے ہیں کہ انھوں نے پہلے تمام مکالمے انگریزی میں ترجمہ کرائے اور پھر بنگالی میں پھر کہیں جا کر انھوں نے ایک ایک مکالمے کو منظوری دی۔ سکرپٹ انھوں نے خود ہی تیار کی تھی۔
چونکہ ستیہ جیت رے نے بطور گرافک ڈیزائنر اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی اس لیے وہ اپنے کرداروں کی تصویر پہلے کاغذ پر خود ہی تیار کرلیتے تھے۔ انھیں فن خطاطی میں میں بھی مہارت تھی اور انھیں کئی فونٹس کے موجد کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جس میں انھوں نے انگریزی کو کم از کم چار فونٹس دیے جبکہ بنگالی زبان میں متعدد فونٹس متعارف کرائے۔

مختصر حالات زندگی

ستیہ جیت رے دو مئی 1921 میں سوکمار رے اور سوپربھا رے کے گھر میں پیدا ہوئے لیکن جب وہ دو سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور وہ اپنے دادا اوپیندر کشور رے اور ان کے پرنٹنگ پریس کے ماحول میں بڑے ہوئے۔
انھوں نے بچوں کے میگزن سندیش میں بہت دلچسپی دکھائی یہ میگزن ان کے دادا نکالتے تھے۔ انھوں نے کلکتہ کے معروف پریزیڈنسی کالج سے علم معاشیات میں گریجویشن کیا۔ اس دوران انھوں نے ہالی وڈ کی متعدد فلمیں دیکھیں۔
ان میں انھیں چارلی چیپلن، بسٹر کیٹن اور ہیرولڈ لائید کے کام پسند آئے جبکہ دی تھیف آف بغداد جیسی فلمیں پسند آئی اور ان لوگوں نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ماں کے زور دینے پر وہ فائن آرٹس میں اعلی تعلیم کے لیے کلکتہ سے دور شانتی نکیتن یونیوسٹی گئے لیکن انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی کیونکہ انھیں پینٹر یا مصور بننے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

ستیہ رے کی فلم میں دلچسپی روز بروز بڑھنے لگی اور انھوں نے 1847 میں کلکتہ فلم سوسائٹی قائم کی۔ (گیٹی امیجز)

پھر انھوں نے ویژول آرٹسٹ کے طور پر ایک برطانوی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام شروع کیا جہاں ان کی آنند منشی کی نگرانی میں تربیت ہوئی۔ پھر انھوں نے دوسری ایجنسی میں نوکری کی جہاں انھوں نے کئی کتابوں کے سرورق ڈیزائن کی۔
رے کی فلم میں دلچسپی روز بروز بڑھنے لگی اور انھوں نے 1847 میں کلکتہ فلم سوسائٹی قائم کی جس میں وہ دوسرے ملکوں کی فلمیں دکھاتے تھے۔
1949 میں ان کی شادی ان کی بجویا داس سے ہوئی جن سے انھیں ایک عرصے سے محبت تھی۔ بہرحال 1950 میں ڈی جے کیمر نے انھیں اپنے ایجنسی کے ہیڈکوارٹر انگلینڈ کام کے سلسلے میں بھیجا جہاں انھوں نے چھ ماہ کے قیام میں تقریبا 100 فلمیں دیکھیں اور جب ایک دن وہ 1948 میں ریلیز ہونے والی معروف فلم بائیسکل تھیف (سائیکل چور) دیکھی تو ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انھوں نے اس دن طے کر لیا کہ وہ فلم ساز بنیں گے اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
انھوں نے پہلے پاتھیر پنچالی پھر اپراجیتو اور آپور سنسار نام کی تین مسلسل فلمیں بنائیں جسے ان آپو کی ٹرائیلوجی کہا جاتا ہے اور یہ تینوں فلمیں کامیاب رہیں اور انھیں نہ صرف بنگال بلکہ دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
انھوں نے اپنی آخری فلم آگنتک (اجنبی) بنائی جو ان کی ایک مختصر کہانی اتیتھی یعنی مہمان پر مبنی تھی اور یہ اس جہان فانی کا یہ مہمان 23 اپریل 1992 کو اس دنیا سے چلا گیا۔

شیئر: