Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گندم کی درآمد پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے، ابتدائی رپورٹ وزیراعظم کو پیش

نگران حکومت نے گذشتہ سال گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں گندم درآمد سکینڈل بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کر دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال اگست سے مارچ 2024 تک  330 ارب روپے کی گندم درآمد کی گئی ہے۔
اتوار کے روز سیکریٹری کابینہ ڈویژن اور سیکریٹری خوراک نے ابتدائی تحقیقات سے وزیراعظم کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ330 ارب روپے مالیت کی درآمد کی گئی گندم میں سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم میں کیٹرے پائے گئے ہیں۔

نگراں دور حکومت میں 250 ارب روپے کی 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی: رپورٹ

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے جولائی 2023 میں گندم درآمد کرنے سے متعلق فیصلہ معلق رکھا تھا۔ نگران حکومت کے دور میں 250 ارب کی لاگت کی 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت میں 80 ارب کی لاگت کی 7 لاکھ میٹرک ٹن گندم پاکستان پہنچی۔ مجموعی طور پر پاکستان سے گندم درآمد کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر پاکستان سے باہر گئے۔
سیکرٹری کابینہ ڈیویژن کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ اکتوبر 2023 میں ساڑھے 4 لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن گندم درامد کی گئی۔ جبکہ نومبر 2023 میں پانچ لاکھ میٹرک ٹن گندم پاکستان لائی گئی۔
ساڑھے3 لاکھ 35 ہزارمیٹرک ٹن گندم دسمبر 2023 میں درآمد کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 میں سات لاکھ میٹرک ٹن گندم درامد کی گئی جبکہ فروری 2024 میں ساڑھے 8 لاکھ میٹرک ٹن گندم درامد ہوئی ہے۔

گندم کے 70 جہاز 6 ممالک سے آئے: رپورٹ

تحقیقاتی رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ 8 ماہ کے دوران گندم کے 70جہاز 6 ممالک سے پاکستان لائے گئے۔
پہلا جہاز پچھلے سال 20 ستمبر کو اور آخری جہاز 31 مارچ رواں سال پاکستان پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق سے گندم 280 سے 295 ڈالرز فی میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی جب کہ وزارت خزانہ نے نجی شعبہ کو 10 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
یاد رہے وزیر اعظم شہباز شریف نے ضرورت سے زائد گندم درآمد کرنے پر دو تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ 8 ماہ کے دوران گندم کے 70جہاز 6 ممالک سے پاکستان لائے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک کمیٹی جسٹس ریٹائرڈ میاں مشتاق کی سربراہی میں قائم کی۔ کمیٹی غیر ضروری طور پر گندم کی درآمد سے ملکی خزانے کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات کرے گی۔
کمیٹی مکمل چھان بین کے بعد 2 ہفتے میں رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کرے گی۔
وزیر اعظم نے چار رکنی دوسری کمیٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کی سربراہی میں قائم کر رکھی ہے جو اپنی مکمل رپورٹ کل وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔
کمیٹی اضافی گندم درآمد کے حوالے سے قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے گی۔
چار رکنی کمیٹی ایل سیز کو اوپن اور فروری کے بعد گندم امپورٹ کرنیوالے ذمہ دارارن کا تعین بھی کرے گی۔ کمیٹی کو چار دن میں اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
کمیٹی ممبران میں شکیل احمد منگنیجو، ایڈیشنل سیکریٹری امجد محمود، ایڈیشنل سیکریٹری وزارت تجارت حسن علی منگی شامل شامل ہیں۔

13 جولائی 2023 کو وزارت تحفظ خوراک نے 10 لاکھ ٹن گندم کی سرکاری طور پر خریدنے کی سمری منظور کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نگران حکومت نے گذشتہ سال گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
گندم درآمد کرنے کے معاملے پر سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق پہلی بار 10 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے لیے سمری پی ڈی ایم حکومت میں سامنے آئی اور 13 جولائی 2023 کو وزارت تحفظ خوراک نے 10 لاکھ ٹن گندم کی سرکاری طور پر خریدنے کی سمری منظور کی۔
بعد ازاں گندم کو سٹریٹجک ذخائر کے طور پر لانے کا فیصلہ ہوا مگر 8 اگست 2023 کو اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ای سی سی نے سمری کو مؤخر کر دیا۔
نگران حکومت کے قیام کے بعد یکم ستمبر2023 کو گندم درآمد کی سمری وزیر اعظم ہاؤس بھیجی گئی اور 4 ستمبر 2023 کو وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور وزیر تحفظ خوراک سمری کی منظوری دی۔
دستاویزات کے مطابق نگران وزیر اعظم کو بھیجی گئی سمری میں آٹے کی قیمت 5 ہزار 6 سو روپے من بتائی گئی جس کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹرکو شامل کرنے کی ہدایات آئیں۔
12  ستمبر 2023 کو گندم درآمد کی سمری دوبارہ ای سی سی کو بھیجی گئی مگر وزارت خزانہ نے گندم سرکاری طور پر خریدنے کی حمایت نہیں کی اور نجی شعبے کو گندم کی درآمد کی اجازت دی گئی۔

شیئر: