Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل

سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کا مخصوص نشستوں کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے معطل کر دیے ہیں۔
پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔
14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کا مخصوص نشستوں کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں۔‘
سپریم کورٹ نے دائر درخواستوں پر سماعت تین جون تک ملتوی کر دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی استدعا پر لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ موقف کی تائید ہے: بیرسٹر گوہر خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے موقف کی تائید ہے۔

گوہر خان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں کسی دوسری پارٹی کو دینا ایک غیرقانونی اقدام تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پیر کو سپریم کورٹ کے باہر صحافتوں سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ اور الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے اس آرڈر کے خلاف ہماری پٹیشنز موجود تھیں، یہ الیکشن کمیشن کا وہ آرڈر تھا جس میں اس نے ہماری کل 78 مخصوص نشستیں دوسری پارٹی کو دے دی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس پورے عمل کے حوالے سے کہتے رہے کہ یہ غیرآئینی اقدام ہے۔ کسی بھی جماعت کو آئین کے مطابق اس کی جیتی ہوئی سیٹوں سے زیادہ سیٹیں نہیں مل سکتیں۔‘
گوہر خان نے کہا کہ ’ہم نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر حلف اٹھانے سے قبل کہا تھا کہ یہاں ان لوگوں کو لایا جائے جن کا حق بنتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی اس حوالے سے آواز بلند کی تھی۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین میں ترمیم کی جو بات کر رہی تھی وہ اسی اکثریت کی وجہ سے کر رہی تھی مگر اب اس کا سدباب ہو گیا۔
ان کے مطابق ’اب حکومت ایک تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے اور ناکام ہو گی۔‘
 

شیئر: