Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس نے جنگ بندی کی تجویز قبول کرلی، اسرائیل کا موقف غیر واضح

غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہفتے کو مصر کے شہر قاہرہ میں ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حماس نے پیر کو اسرائیل کے ساتھ جاری سات ماہ طویل عزہ جنگ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کی تجویز منظور کر لی ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشکش کا جائزہ لے رہا ہے۔
اے پی کے مطابق اسرائیل کے ردعمل کی وجہ سے غیریقینی بڑھ گئی ہے کہ آیا غزہ میں سات ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے کوئی معاہدہ ہوا ہے کہ نہیں۔ 
پیر کو ہونے والی پیش رفت سے امید کی پہلی کرن پیدا ہو چلی ہے کہ شاید اس سے غزہ میں مزید خون ریزی رک سکتی ہے۔ 
 روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے جنگ بندی منظور کرنے کا اعلان اسرائیل کے رفح کے 10 لاکھ سے زائد رہائشیوں کو علاقہ خالی کرنے کے حکم کے چند گھنٹوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کے احکامات سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ رفح پر حملہ ہونے والا ہے۔ تاہم اسرائیل کے  امریکہ سمیت کلیدی اتحادیوں نے رفح آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں جہاں 14 لاکھ فلسطینی جو کہ غزہ کی کل آبادی کا آدھا ہے پناہ گزین ہیں۔ 
دوسری جانب حماس کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز قبول کرنے کی خبروں پر رفح میں موجود فلسطینیوں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فلسطینیوں کو امید ہو چلی ہے کہ شاید اس کے بعد ممکنہ اسرائیلی حملہ رک جائے گا۔
قبل ازیں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے قطر اور مصر کے مصالحت کاروں کو آگاہ کیا تھا کہ گروپ نے ان کی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی ہے۔
 امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے حماس کے ردعمل کے بارے میں کہا ’ہم ہر جواب کا جائزہ لیتے ہیں اور بہت سنجیدگی سے جواب دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس دوران اسرائیل کی فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔‘ اسرائیلی نقطۂ نظر سے واقف ایک عہدے دار نے کہا کہ حماس کی طرف سے منظور کردہ منصوبہ اسرائیل کا تجویز کردہ فریم ورک نہیں تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات کی اور رفح پر حملے سے متعلق امریکہ کے خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ جنگ بندی اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکی حکام حماس کے ردعمل کا جائزہ لے رہے ہیں اور ’خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔‘
ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ ’امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا حماس معاہدے کے کسی ایسے ورژن پر راضی ہے جس پر اسرائیل اور بین الاقوامی مذاکرات کاروں نے دستخط کیے تھے یا (وہ) کچھ اور (چاہتی ہے۔)‘

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رفح میں 10 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
یہ جنگ بندی معاہدہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلا معاہدہ ہو گا، اگر اس پر عمل درآمد ہوا۔ تاہم نومبر میں ایک ہفتے کے لیے جنگ میں عارضی وقفہ ہوا تھا جس کے بعد کئی مہینے جنگ بندی کے لیے ناکام مذاکرات ہوتے رہے تاکہ یرغمالیوں کو رہا اور غزہ میں امداد پہنچائی جا سکے۔
جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے خدشات اس وقت پیدا ہو گئے تھے جب حماس کے عہدیدار عزت الراشق نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے رفح میں کوئی بھی آپریشن جنگ بندی مذاکرات کو ختم کر دے گا۔
غزہ کے جنوبی کنارے پر واقع رفح شہر اسرائیل کی جنگ اور بمباری کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے غزہ کے 23 لاکھ سے زائد رہائشیوں کی آخری پناہ گاہ رہا ہے جن کو اسرائیل نے سات مہینے طویل جنگ کے دوران اس طرف دھکیلا۔
جنگ بندی کے معاہدے کی فوری طور پر معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہے۔
قبل ازیں حماس نے کہا تھا کہ ان کا ایک وفد ہفتے کو غزہ میں فائر بندی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے قاہرہ گیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہفتے کو مصر کے شہر قاہرہ میں ہوئے تھے۔

شیئر: