Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دور جدید کا علاج،ڈھیروں ٹیسٹ، کرکٹرکھیلے تو ریکارڈ بن جائیں

صبیحہ خان۔ کینیڈا

لفظ دہشت میں کچھ ایسی دہشت چھپی ہے کہ اس کو صرف سن کرہی انسان ایک لمحے کیلئے دہشت زدہ ضرور ہوجاتاہے۔ عام اصطلاح میںتو دہشت گرد سے مراد ایک ایسا جاندار ہوتا ہے جو بظاہر انسان دکھائی دیتا ہومگر حیوانوں سے بدتر ہو، انسانیت سے بالکل عاری ہو، انتہائی ظالم اور بے رحم ہو، عقل ودانش اسے چھُو کر نہ گزری ہو، اسے زندگی سے محبت ہو اور نہ ہی زندہ لوگوں سے ۔ ہمارے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور سانحات اتنے تواتر سے ہوئے کہ ہمارے کان یہ لفظ سننے کے عادی ہوگئے اور اگر آپ اپنی بصیرت افروز نگاہ ہر شعبہ ہائے زندگی پر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ ہر کوئی کسی نہ کسی انداز سے ، کسی نہ کسی شدت کی دہشت گردی کررہا ہے کیونکہ دہشت گردی صرف ایک طریقے سے نہیں کی جاتی، دیکھا جائے تو بہت سے لوگ اپنے رویوں ، باتوں اور عمل سے کسی دہشت گرد سے کم نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال زبانی دہشتگردی ہے جوہمارے معاشرے میں بڑی عام ہوچکی ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے، دشنام طرازی اور زبان چلانے جیسے ہتھیاروں سے لوگ خاصے لیس ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر زبانی بم برساتے رہتے ہیں۔ اب زبان چلاکر ایک دوسرے پر اپنی دہشت بٹھانے کا گویا فیشن چل نکلا ہے۔ سسرال لفظ ہی ایسا ہے جس سے دہشت گردی ٹپکتی ہے ۔ ساس ، سسر، نند ، دیور، جیٹھ ، سالا، سالی، یہ سسرالی فوج ہے جس کے نام سے بڑے بڑے سورما بھی کانپنے لگتے ہیں۔اس کی کمانڈر انچیف ’’ساس‘‘ ہوتی ہے اور باقی ہستیاں قوانین کے مطابق کام کرتی رہتی ہیں ، ساس کی دہشت اور رعب کی وجہ سے بے چارا سسر جو اس فوج کا سربراہ ہونے کے باوجود اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی وزیراعظم کی سی ہوتی ہے ۔ 95فیصد گھرانوں میں امن عامہ میں خلل ڈالنے اور بہو کو ادنیٰ درجے کی چڑیل ثابت کرنے کا خوشگوار فریضہ ساس ہی انجام دیتی ہے۔ کسی بھی بات کو بنیاد بنا کر لڑنے جھگڑنے پر آمادہ رہتی ہے۔ساس ،طعنہ زنی کی خاصی ماہر ہوتی ہے۔ اس میںگھریلو دہشت گردی پیدائشی ہوتی ہے چنانچہ اس کا ختم ہونا ایک طرح سے ناممکن ہوتا ہے۔ لیزر سرجری بھی اس میں موجود فسادی جراثیم کو مارنے میں ناکام رہتی ہے ۔ اس کا واحد حل اور علاج یہی ہوتا یہ کہ ساس کو بہو بھی اسی کے قبیل کی مل جائے یعنی سیر کو سوا سیر ٹکرا جائے تو زندگی میں ذرا سکون کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ ٭٭محلہ جاتی وخاندانی دہشت گرد:اس شعبے میں بھی خواتین مردوں کو مات دے کر اپنا لوہا منواچکی ہیں۔ ان دہشت گردوں کی نمایاں خصوصیات میں صبح و شام کن سوئے لینا ، لگائی بجھائی کے ذریعے گھر کے گھر پھونکنا شامل ہیں ۔یہ دہشت گرد خواتین سارا دن مصروفِ کار رہتی ہیں۔ پڑوسیوں اور اہل محلہ کی خبر گیری اور مخبری ان کے دلچسپ مشغلے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی خواتین کی زبان عموماً خود بخود ہی چلتی رہتی ہے۔ آپ چاہے ان سے کچھ پوچھیں یا نہ پوچھیں ، وہ آپ کو سب کچھ بتادیتی ہیں۔ زبانی دہشت گردی کے سبب خاندانوں میں خوب ٹوٹ پھوٹ اور دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں مگر منہ پھٹ فسادی خواتین پھر بھی باز نہیں آتیں ۔ ٭٭ دفتری دہشت گردوں کا کام ہمہ وقت کولیگز کی ٹانگ کھینچنا ، انہیں نیچا دکھانا ، ان کی کامیابی میں رہ جانیوالی خود ساختہ کمی کو اجاگر کرنا ، معمولی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، خوشامد اور چاپلوسی کے حربے استعمال کرکے باس کی جی حضوری اور اس کے ناز اٹھاکر ماحول کو دہشت ناک بنانا اور وں کا ذہنی سکون حرام کرنا ہوتا ہے۔ خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے افراد جن محکموں میں موجود ہوتے ہیں، ان کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ خوشامدی اور جی حضوری کرنے والے لوگ اپنے فن میں خاصے ماہر ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ اپنی جھوٹی تعریف سے ویسے ہی چاروں خانے چت ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری محکموں کے علاوہ سیاست بھی خوشامد اور چاپلوسی کی دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ٭٭سیاسی لیڈروں کو اکثر خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے افراد گھیرے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے دماغ سے زیادہ کام لینے کی بجائے ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں خوشامدی دہشت گردوں سے ۔ ٭٭ بہروپئے دہشت گرد جو ہر دم اپنی سادگی اور معصومیت کا پرچار کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ فقیری کی آڑ میں غریب اورسادہ لوگوں کو لوٹتے ہیں ۔ جعلی عملیات کے ذریعے معصوم بچوں اور کم عقل عورتوں کی جان لے لیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ جہالت اور غربت کے باعث ان عاملوں کی دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے سادہ لوگ بہت عظیم دکھائی دیتے ہیں گویا حد درجے کسر نفی سے کام لے رہے ہوں۔ وہ اپنی اسی معصومیت کی آڑ میں ساری چالاکیاں اور تیزیاں دکھاجاتے ہیں ۔ آپ ایسے سیدھے سادھے لوگوں کو کبھی لاجواب ، بے بس ، مجبور ، دھوکہ کھایا ہوا نہیں پائیں گے بلکہ ان کے ہاتھوں دھوکہ کھاکربے بس اور لاچار ہو جائیں گے ۔

شیئر: