rراجستھان------------راجستھان عرصہ دراز سے راجوں، مہاراجوں کی وجہ سے بہت مشہور رہا ہے۔ انکی تعمیرات اور رنگوں کے حسین امتزاج کے اعلیٰ ادراک کی بناء پر ہمیشہ ہی اسکی شہرت ہوتی رہی ہے تاہم پرانے زمانے میں جب سیر و سیاحت کی نئی عصری سہولتیں موجودنہیں تھیں۔ ان علاقوں کا سفر اچھا خاصا دشوار ہوتا تھا ۔ سیاحوں کو اچھی خاصی تکلیف اٹھانے کے بعد ہی تفریح کے مواقع ملتے تھے۔ سیاحتی صحافی سائمن سیباگ نے ایک عرصے کے وقفے کے بعد پھر ہند کے سفر کے دوران اس علاقے کی سیاحت کی اور لطف اندوز بھی ہوئے۔ حالیہ سفر کے دوران مشہور زمانہ ہوا محل دیکھنے کیلئے جے پور بھی گئے۔ دیہی راجستھان کو بھی دیکھا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے مختلف قیام گاہوں کے علاوہ چھاترا ساگر کے قریب لگے خیموں میں بھی وقت گزارا ۔ اتنی سیر و تفریح کے بعد سائمن اور انکے ہمسفر ساتھیوں نے اپنی تھکن دور کرنے اور تھوڑی دیر بعدآگے چلنے کے عزم کو تقویت دینے کیلئے اودھے پور اور جودھپور کے درمیان واقع دیہی علاقوں میں خورونوش کی غرض سے بھی قیام کیا۔ یہاں انہوں نے ایک درخت کی چھاؤں میں 4ایسے افراد کو دیکھا جو سفید پگڑی سر پر باندھے’’توپ نما‘‘ روٹیاں قریب ہی جلتی انگیٹھی میں سینک رہے تھے۔ ایک دوسرے کونے میں ا بلتا پانی شاید چائے ، کافی یا سوپ کی تیاری کی نشاندہی کررہا تھا۔ اسی دوران ایک گڈریا لڑکا پاس سے گزرا اسکی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ جس بھینس کو چراتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے وہ قریب ہی بچھی ہوئی چارپائیوں سے دور ہی رہے۔ پرانے راجاؤں اور مہاراجائوں کا دور گزر چکا ہے یا گزرتا جارہا ہے مگر نئے راجائوں، مہاراجاؤں اور راجکماروں کی جو نئی نسل سامنے آرہی ہے وہ کافی باصلاحیت ہے انکے مزاج میں بھی جذبہ مہمان نوازی نہ صرف پیدا ہورہاہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ سائمن بھی اس موقع پر اپنے تقریباً14دوستوں اور رفقائے سفر کے ساتھ انکے پاس پہنچا ۔یہاں 13سے 75سال تک کی عمر کے افراد موجود تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ دلچسپ رہا۔ دہلی سے سائمن اور انکے ساتھی ہوا محل دیکھنے کیلئے بذریعہ کار جے پور پہنچے تھے۔ جے پور پہنچنے کے بعد سب ہوا محل سے عنبر محل تک ہاتھیوں پر سوار ہوکر پہنچے۔ پرانے شہر سے گزرتے ہوئے رفتار قدرے سست ہوئی مگر ٹک ٹک کی آواز مسلسل آتی رہی۔ جس ہوٹل میں انکا قیام ہوا اس میں ایک جدید سوئمنگ پول بھی ہے۔ ایسپریسو کافی بھی یہاں ملتی ہے۔ وائی فائی کی سہولت بھی موجود ہے ۔ سائمن کا کمرہ قیمتی پتھروں سے سجا ہوا تھا۔ یہاں پانی گرم رکھنے کیلئے الیکٹرک شاور بھی موجود تھا۔پڑھنے کیلئے جگہ جگہ روشنی کا معقول انتظام بھی تھا۔ یہاں دو رات قیام کے لئے سائمن اور انکے رفقائے سفر 3گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد چھاترا ساگر پہنچے جسے ایک ڈیم کے قریب واقعہ بڑی ہی خوبصورت خیمہ بستی کہا جاسکتا ہے۔ یہ خیمہ بستی راجہ ہرش وردھن اور انکے بھائی نے بنائی تھی۔ ایک ایسی جگہ تھی کہ اس سے قبل سائمن کو کسی اتنی خوبصور ت اور دلکش جگہ جانے یا قیام کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ یہاں راج خاندان کے تینوں افراد بھی قریب ہی پہاڑ پر بنے ایک عالیشان محل نما مکان میں رہتے ہیں۔ قریب ہی ایک ڈیم بھی بنا ہوا ہے ۔ اس خیمہ بستی میں 11خیمے ہیں اور ہمیشہ مہمانوں سے بھرے رہتے ہیں۔ یہاں سائمن اور انکے ساتھیوں نے رائل ہیری ٹیج حویلی میں قیام کیا۔ یہ جگہ 18ویں صدی عیسوی میں شکار گاہ ہوتی تھی جس کے مالک مہاراجہ جے پور تھے۔ اب اسے راج خاندان کے 3افراد چلا رہے ہیں۔ ان تینوں میں سے ایک پردیپ سنگھ ہیں جو دراز قد بھی ہیں۔ بلکہ کافی مقتدر بھی ہیں۔ ہمیشہ ہی ایک چوڑی خوبصورت ہیٹ سر پر ڈالے رہتے ہیں۔ دوسری انکی بیوی اینجلک ہیں اور تیسری شخصیت انکی راجکماری شیام بھاوی ہیں۔ تینوں نے ہی سائمن اور انکے ساتھیوں کے اعزاز میں دیئے گئے ڈنر میں شامل تھے۔