Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر عمرانہ نے مشاہدے کو شاعری میں پرو دیا، سہیل ثاقب

 بزمِ ادراک کی ایک شام،پاکستان سے آئی ہوئی شاعرہ کے نام
بشیراحمد بھٹی۔ظہران
    ادب ایک طلسم کدہ ہے جس میں خالی ہاتھ داخل ہونے والا اپنی زنبیل انمول موتیوں سے بھر لاتا ہے۔ ادب چونکہ معاشرے کی اساس ہے اس لئے یہ معاشرے کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ ادبی تنظیمیں ادب کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔ 
منطقہ شرقیہ سعودی عرب کی ادبی تنظیم ”بزم ِ ادراک “ نے پاکستان سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ ، ناول نگار، افسانہ نگار، محقق ، کالم نگار ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے اعزاز میں ظہران کے مقامی ہوٹل میں ایک شام کا اہتمام کیا ۔ تقریب کی صدارت چار شعری مجموعہ ہائے کلام کے خالق بین الاقوامی شہرت کے حامل ہردلعزیز شاعر سہیل ثاقب نے کی۔ مہمانِ خصوصی کی نشست پر ڈاکٹر عمرانہ مشتاق تشریف فرماتھیں۔ مہمانانِ اعزازی کی نشستوں پر پاکستان سے آئی ہوئی مہمان ادیبہ ،جی سی یونیورسٹی لاہور میں شعبہ فارسی کی پروفیسر اقصیٰ ساجد ، منفرد لہجے کے شاعر و بے باک نقاد افتخار حسین راہب اور مترنم لہجے کے شاعر حکیم اسلم قمر متمکن تھے ۔ نظامت کے فرائض شاعر ، فکاہ نگار، افسانہ نگارمحمدایوب صابر نے اپنے مخصوص انداز میں ادا کئے۔
تقر یب 2حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ محفل کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیاجس کی سعادت محمد رفیق آکولوی نے حاصل کی۔
محمدایوب صابر نے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق جب شاعری تخلیق کرتی ہیں تو قرطاس پر پُرکیف منظر اتر آتا ہے اورجب نثر لکھتی ہیں تو قلب و ذہن پر دستک محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی مادری زبان پنجابی ہے، شاید اِسی لئے انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کی شاعری محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ وہ اپنے پیغام کو موثر انداز میں پیش کرتے ہوئے نسائی لہجے کو دبنگ انداز میں پیش کرکے صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں۔وہ ہمارے معاشرے میں عورت کو دبا کے رکھنے کی سوچ کو بدلنا چاہتی ہیں اور فرسودہ رسم و رواج کی زنجیروں کی توڑ کر کھلی فضا میں سانس لینے کی متمنی ہیں۔ یہ خواہش ایک عورت کا بنیادی حق بھی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرتی اقدار کی تنزلی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے ظلم و جبر دیکھ کر آنکھیں بند نہیں کیں۔ وہ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حو صلہ رکھتی ہیں۔
بشیر احمد بھٹی نے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی نظم اور نثر کا مطالعہ قاری کے لئے خوشگوار احساس ہے۔ ادب اِن کو ورثے میں ملا ہے۔ انہوں نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کتب کو طاق درطاق رکھے دیکھا۔ اِن کے والد اپنی پوسٹنگ کے سلسلے میں مختلف شہروں میں عازم ِ سفر رہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کو قریہ قریہ، نگر نگر گھومنے کا اتفاق ہوا۔ اعلیٰ تعلیم اِن کے خاندان کا طرہ ¿امتیاز ہے۔
سرفراز حسین ضیاءنے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے اپنی پنجابی شاعری میں اپنی ذات کی نفی کی ہے ۔انہوں نے جس طرح ڈوب کر اپنی پنجابی شاعری تخلیق کی ہے اِس میں خاص رنگ غالب نظر آتا ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان کے معروف شاعروں کا اسلوب اپنایا ہے۔
حکیم اسلم قمر نے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشاق سے پاکستان اور سعودی عرب کے مشاعروں میں ملاقات ہو چکی ہے۔ اِن کی شاعری میں ایک خاص قسم کی سرشاری کیفیت ہے جو قاری یا سامع کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ افتخار حسین راہب نے کہا کہ ڈاکٹرعمرانہ مشتاق کی شاعری سنتے ہوئے میں ابھی ایک شعر کے سحر سے باہر نہیں نکلتا تو دوسرا سنائی دیتا ہے پھر چونک کر دوسرے شعر کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہم زیادہ تر اساتذہ کی شاعری تک محدود رہتے ہیں لیکن کبھی ایسے تخلیق کار سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے جن کی فکری جہات اور بھی ہیں، تو حیرت ہوتی ہے۔ 
غزالہ کامرانی نے کہا کہ میری ڈاکٹر عمرانہ مشتاق سے پہلی ملاقات ہے ۔ مجھے اِن کی شاعری سن کر مزید شوق بڑھا ہے۔ میں اِن کی شاعر ی سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی بیٹی فاطمہ احمد جو خود بھی ہردلعزیز شاعرہ ہیں، انہوں نے کہا کہ میرے لئے انتہائی خوشی کی بات کہ اہلِ فکرو فن میری والدہ کے لئے اِس قدر بے لوث جذبات رکھتے ہیں اور اِن کے لئے سچے جذبات رکھتے ہیں۔ میری والدہ ایک بہترین شاعرہ ہی نہیں، ایک بہترین ماں بھی ہیں ۔ انہوں نے ہمارے والد کی وفات کے بعد ہمیں کسی طرح کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میری والدہ اکیلی تدریس ، ادب اور گھر کو کیسے ایک ساتھ وقت دے رہی ہیں۔ 
پروفیسر اقصٰی ساجد نے کہا کہ میں بزمِ ادراک کے صدر ایوب صابر کو مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ آپ لوگوں نے وطن سے اِس قدر دور بیٹھ کر ایسا ادبی ماحول فراہم کیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں لاہور میں ہوں۔ انہوںنے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے بارے میں مضامین میںڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی شخصیت ، شاعری ، کالم نویسی، افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی جھلک نظر آتی ہے۔ اِس محفل میں شاعرات کے حوالے سے ریحانہ روحی اور پروین شاکر کا ذکر ہوا ہے۔ میں چونکہ فارسی کی معلمہ ہوں اِس لئے مجھے ڈاکٹر عمرانہ کی شاعری سن کر فارسی کی معروف شاعرہ پروین احتسامی کا خیال آیا ہے۔ ڈاکٹرعمرانہ مشتاق کی شاعری میں بھی پروین احتسامی کی طرح معاشرتی مسائل کا تذکرہ ہے۔ پروفیسر اقصٰی ساجد نے فارسی اشعار اورترجمہ بھی پیش کیا۔
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے کہا کہ میں بزمِ ادراک کے صدر ایوب صابر کی ممنون ہوں جنہوں نے یہاں کے مقامی تخلیق کاروں سے ملنے کا موقع فراہم کیا۔ میں خود بھی ادب میں بہت فعال ہوں لیکن سعودی عرب آکر محسوس کیا کہ یہاںبھی آپ ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ قابلِ ستائش ہے ۔ آپ لوگ یہاں نہ صر ف زرِ مبادلہ کے ذریعہ وطن کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ محبتوں کے اِس سفر کوبھی جاری رکھاہوا ہے جو لائق ستائش ہے۔ میں یہاں کمیونٹی کے افراد سے کہوں گی کہ تمام لوگ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو پس ِ پشت ڈال دیں۔ میں آپ تمام کی محبتوں کا اعزاز اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔ پاکستانی شعراءکے علاوہ انڈین شعرا نے جس قدر محبت کا اظہار کیا ہے اِس سے میرا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ 
صدر مجلس سہیل ثاقب نے صدارتی کلمات میں ایوب صابر کو ایک شاند ار تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق ادب کی دنیا میں ایک معروف نام ہیں۔ میں نے اِن کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے ۔ انہوں نے شاعری ، کالم نویسی اور افسانہ نگاری میں ایک مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے منطقہ شرقیہ کے مقامی قلم قبیلے سے ملاقات کی ہے۔ اس لئے ہم ان کے ممنوں ہیں۔میں اِن کی شاعری کے سحر میں مبتلاہوں ،اِ ن کی غزل اور نظم اِس قدر توانا ہے کہ قاری یاسامع کو اپنا اسیر بنالے۔ اِن کی شاعری میں نئے مضامین ہیں اور فکری اعتبار سے منفرد ہے ۔ مشاہدے کو انہوں نے اپنی شاعری میں پرو دیا ہے۔
وقفے کے بعد محفلِ مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ شعرا ءاپنے منتخب کلام سے سامعین کا دل جیتنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں وہ کامیاب رہے۔ ہر اچھا شعر داد کی شکل میں اپنا خراج وصول کر رہا تھا۔ ہر طرف واہ واہ ،مکرر ارشاد کی آوازوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری تھا۔ سخن کے موتی برس رہے تھے اور قلب و ذہن کو منور کرکے اپنا حق ادا کر رہے تھے۔ شعرا ءنے اپنے بہترین اشعار سے ایک عام سی تقریب کو یاد گار موقع میں تبدیل کر دیا۔ سامعین اِس قدر محو تھے کہ کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ یہ تقریب 4 گھنٹے سے جاری ہے۔ ڈاکٹر عمرانہ مشاق نے محمد ایوب صابر، حکیم اسلم قمر اور سرفراز حسین ضیاءکو اپنا شعری مجموعہ کلام ©©”سمندر میں ستارہ“ کی کاپیاں عنایت کیں۔ محمد ایوب صابر نے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کو اپنا افسانو ی مجموعہ” آنگن کی خوشبو“ جبکہ فاطمہ احمد کو اپنا شعری مجموعہ” اذانِ سحر “ پیش کیا۔ اعجاز الحق، سید منصور شاہ، مسعو د جمال، غزالہ کامرانی، سلیم حسرت، وقار ضیا، محمد رفیق آکولوی، سرفراز ضیا، ایوب صابر، خالد صدیقی، ولی حیدر لکھنوی، فاطمہ احمد، افضل خان، حکیم اسلم قمر، افتخار راہب،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور سہیل ثاقب نے اپنا کلام پیش کیا۔بھوپال این آر آئیز کے صدر شہریا ر محمد خان، ساجد فاروق، امجد بٹ، شبیر انصاری اور ناصر شاہ کی خصوصی شرکت نے محفل کو چار چاند لگا دئیے۔تقریب کے آ خر میں محمد ایوب صابر نے بزمِ ادراک کی جانب سے تما م شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا اور اس امر کا خصوصی اظہار کیا کہ اس تقریب کے انعقاد کے سلسلے میں حلقہ¿ فکروفن ریاض کا تعاون حاصل رہا۔ وقار نسیم وامق اور ڈاکٹر حنا امبرین طارق اِ س تقریب سے منسلک رہے۔ اس طرح رات کے تیسرے پہر یہ یادگار محفل اختتام پذیر ہوئی۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے شعراءکے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار پیش خدمت:
٭٭اعجاز الحق:
کس طرح محفوظ اُس کو کہہ سکیں گے دوستو
ہر سپاہی شہر کی جب پاسبانی چھوڑ دے
جس دیے کی روشنی میں کاٹتے ہیں رات ہم
رات کے پچھلے پہر وہ ضوفشانی چھوڑ دے
٭٭مسعود جمال:
یاد آتی رہی رات بھر چاندنی
دل جلاتی رہی رات بھر چاندنی
ہم تڑپتے رہے اور سسکتے رہے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی
٭٭سید منصور شاہ:
بگڑی بنی سو بات ، ارے باپ کیا کروں
جَڑ گئی کمر پہ لات، ارے باپ کیا کروں
کہتے ہیں چاند میرا اُفق پر نہ آئے گا
دکتورِ فلکیات ، ارے باپ کیا کروں
٭٭سلیم حسرت:
میں گر شادی سے پہلے ہی سدھر جاتا تو اچھا تھا
سدھر جانا نہ تھا ممکن تو مرجاتا تو اچھا تھا
سبھی کا جانبِ ملکِ عدم جانا ہے طے لیکن
بے چاری ساس سے پہلے سسر جاتا تو اچھا تھا
٭٭وقار ضیا:
دنیا فقط سراب ہے سمجھے کچھ اے وقار
کتنا حسیں فریبِ نظر کھا رہے ہیں ہو تم
٭٭غزالہ کامرانی:
شمع کی لو بہت تھرتھراتی رہی
رات بھر مجھ کو بیکل بناتی رہی
یہ نشہ ہے محبت کا گہرا بہت
میں سنبھلتی رہی ڈگمگاتی رہی
٭٭سرفراز ضیا:
پرانے دوست ہوں میرے یادشمن اچھے لگتے ہیں
ہے جن کے ساتھ گزرا میرا بچپن اچھے لگتے ہیں
بہت آگے نکل آئے ہیں گرچہ اُس زمانے سے
مگر اب بھی وہی مٹی کے برتن اچھے لگتے ہیں
٭٭محمد رفیق آکولوی:
گفتگو آنکھوں سے کچھ اور کچھ زبانی ہو گئی
چند لمحوں میں مکمل اک کہانی ہو گئی
تتلیاں رنگین کب تھیں کب گُلوں میں تھی مہک
آپ کیا آئے کہ دنیا زعفرانی ہو گئی
٭٭فاطمہ احمد:
مکمل کبھی تو مری ذات ہو گی
کبھی زندگانی کی بھی رات ہو گی
جو بچھڑے ہیں مجھ سے کبھی تو ملیں گے
قیامت کے دن تو ملاقات ہو گی
٭٭ولی حیدرلکھنوی:
اپنے جینے کو یہ تدبیر مناسب ہی تو ہے
اپنے محبوب کی تصویر مناسب ہی تو ہے
در بدر یونہی بھٹکتا رہوں کب تک اے دل
اُس کی زلفوں کی یہ زنجیر مناسب ہی تو ہے 
٭٭محمد ایوب صابر:
تم نے دیکھا ہی کہاں ہے بے خودی کا اضطراب
مجھ سے پوچھو میں نے جھیلا زندگی کا اضطراب
جو کبھی الفاظ کی گہرائی میں اترا نہیں
منکشف ہو گا نہ اُس پر آگہی کا اضطراب
٭٭خالد صدیقی:
ہم بھی لڑتے رہے اُس سے یونہی پیہم آخر
سخت تھا پھر بھی گزر ہی گیا موسم آخر
اپنی شوریدہ سر ی اِس طرح مشہور ہوئی
اب تو احباب بھی رہنے لگے بر ہم آخر
٭٭افضل خان:
خاموشیوں کی گونج میں یہ کس نے دی مجھے صدا
سارا بدن لرز اُٹھا ایسی غضب کی تھی نوا
میرے حیات و موت کیا میں تو ہوں جیسے اک دیا
اُس نے جلا دیا جلا، اُس نے بجھا دیا بجھا
٭٭افتخار راہب:
منظر نہ رک سکیں گے یہ سیلابِ چشم میں
تصویر اِن کی دل میں کہیں کھینچ لیجئے
راہب پہنچ چکے ہیں سرِ دار ہم بخیر
قدموں سے اب ہمارے زمیں کھینچ لیجئے
٭٭حکیم اسلم قمر:
اے دوست غمِ ہجر کی وحشت کا کروں کیا
بے تابی¿ دل نالہ و حسرت کا کروں کیا
اے چارہ گرو کوئی تو تدبیر بتاﺅ
تنہائی کی راتوں کی اذیت کا کروں کیا
٭٭ڈاکٹر عمرانہ مشتاق:
مجھ کو اظہار کی جرا¿ت سے نہیں روکتا ہے
کوئی قانون محبت سے نہیں روکتا ہے
میں سدا کرتی ہوں تقلید ِ روایات مگر
فن مجھے کاوشِ جدّت سے نہیں روکتا ہے
اُٹھ کھڑی ہوتی ہوں، جب اُس کی شکایت سن کر
تکتا رہ جاتا ہے حیرت سے، نہیں روکتا ہے 
٭٭سہیل ثاقب:
سمندروں سے مجھے ناشناس رہنے دے
تُو اپنی پیاس بجھا ، میری پیاس رہنے دے
میں جانتا ہوں سبھی خواب سچ نہیں ہوتے
بندھی ہوئی ہے جو مدت سے آس رہنے دے
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: