چلتا رہے گا کھیل بھلا یونہی کب تلک
جسے اختیار ملتا ہے اکثر وہ اپنی اور خاندان کی خدمت زیادہ کرتا ہے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
کہتے ہیں کہ جس ملک میں حکمراں اور سیاست دان محب الوطن ہوتے ہیں، اس ملک کی قسمت تبدیل ہو جاتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاںایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان بننے کے بعد اکثر ایسے ہی رہنما ملے جنہیں صرف اپنے نام و نمود کی فکر لاحق رہی۔ انہوں نے اسی کے لئے جد و جہد کی اور دن رات ایک کر دیئے۔ آج بھی ایسے صاحبان موجود ہیں جو اپنی شہرت اور نام کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اکثر بے اختیاراور بااختیار صاحبان ایسے ہیں جن میں یہ عارضہ بڑی شدو مدسے پایا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ ہر لمحہ خبروں کی زینت بنے رہےں۔ وہ خواہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام کریں یا نہ کریں ۔ یہی ان کا وتیرہ ہوتا ہے جو ان کی ذہنی کیفیت کی غمازی کرتا ہے ۔ یہ یقینا نمودو نمائش کے زمرے میں آتا ہے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے صاحبان بھی موجود ہیں جو ملک و قوم کا مقدر سنوارنے کے بہانے عوام کو بے وقوف بنانے میں مگن ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے اچھوتا طریقہ اپنا رکھا ہے ۔ عوام ان صاحبان کی لچھے دار باتوں میں کچھ ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں جیسے کسی سپیرے کی بین پر سانپ مست ہو کر خود ہی آ کر اس کی پٹاری میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر سپیرا اس کو اپنی پٹاری میں قید کر کے اسے اپنی بہادری قرار دیتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر صاحبان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے عوامی جلسے ، جلوسوں، ریلیوں اور اخبارات کے ذریعے ایسے ایسے بیانات دیتے اور شائع کرواتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیںحالانکہ یہ بات عوام خوب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جب یہ ذمہ داران عوام کے لئے کچھ نہیں کرنا چاہتے تو انہیں اپنی لچھے دار باتوں میںالجھا لیتے ہیں او رانجام کار عوامی مسائل بھی دب جاتے ہیں ۔
اکثر لوگ اختیارات مل جانے کے بعد محض نام و نمود کےلئے عوام کے پیسے سے کھیلتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر طبقے کے پا س کالے دھن کی ریل پیل ہو جاتی ہے۔ اسمگلنگ ، رشوت اور 2نمبر کاموں سے کمائی ہوئی دولت اور خوامخواہ کے تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے وہ اپنے خواب مکمل کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ ان منصوبوں کو مکمل کرنے کی راہ میں حائل جھگی نشینوں اور چھوٹے تاجروں کو بھی مالا مال کر دیا جاتا ہے ۔ وہ اپنی زبانیں بند کر لیتے ہیں۔ ناجائز اسلحہ کی تجارت بھی کالے دھن کا حصہ بنتی چلی گئی۔ ہر شخص بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کرنے میں مصروف رہا ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی جگہ پر تختی لٹکی دکھائی دیتی ہے کہ یہ جگہ اسپتال کے لئے مختص کی گئی ہے مگر اس زمین پر سالوں گزر جانے کے بعد بھی کسی اسپتال کا نام و نشان موجود نہیں ہوتا ۔ پچھلے چند سالوں میں اورنج ٹرین اور میٹرو جیسے منصوبوں کے بارے میں بھی مختلف چینلز پر کہا جاتا ہے کہ ان منصوبوں کے نام پر خطیر رقم کتنی ہی جیبوں کی نذر ہو گئی۔درحقیقت نام و نمود کی خواہش اگر حد سے تجاوز کر جائے تو اسے ایک بیماری میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاںکتنے ہی عوام و خواص ا س بیماری کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں نہ سکون رہا اور نہ چین باقی ہے۔ یہی ہماری زندگیوں میں پریشانیوں کی بنیادی وجہ ہے۔ہم دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن یہ خواہش اس وقت خطرناک صورت حال اختیار کر جاتی ہے جب ہماری ”خوبیوں“ میں مزید نکھار پیدا ہو جاتا ہے جب ہم دوسرں کے حال احوال دریافت کرتے ہیں اور دوسروں کی مشکلات میں معاونت کر کے ان کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش میں مبتلا رہتے ہیں اور یہ خواہش اس وقت ہمارے لئے مزید پریشان کن ثابت ہوتی ہے جب ہم اپنی دولت ،اپنے رتبے اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھاکر دوسروں کے سامنے بیان کر تے ہیں۔ شوبازی ، دکھاوے اور نام و نمود کے رواج نے ہمارا دیوالیہ کر دیا ہے مگر پھر بھی ہمیں ہوش نہیں آیا کہ اپنے نام و نمود کے لے عید قرباں پر مہنگے ترین جانوروں کی قربانی کرنا، شادی بیاہ کے موقع پر بے جا خرچ کرنا، ناچ گانے کروانا ، قبائلی رواج کی نقل میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں مہمانوں کا استقبال کرنا ، لمبے چوڑے جہیز کی عام نمائش کرنا ، یہ سب ہمارے معاشرے میں عام سی بات اور رواج بن چکا ہے۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے، وہ نہ کسی فلاپ فلم کا کوئی منظر ہے نہ ہی کسی گاوں دیہات کا عکس معلوم ہو رہی ہے بلکہ یہ حکومت پنجاب کے دارالحکومت لاہو رکی ایک تصویر ہے جس میں شہر کے ڈپٹی کمشنر آفس کا ایک حصہ دکھایا گیا ہے جسے ماضی میں ٹیوب ویل کہا گیا تھا کیونکہ خیال کیا جاتاتھا کہ عوام الناس کو پانی کی فراہمی کی سہولت دی جائے۔ اس لئے ٹیوب ویل لگانے کا منصوبہ تھا اور اسی خیال کے تحت اس منصوبے کا باقاعدہ طور پر سنگ بنیاد بھی رکھا گیا جس پر جلی حروف میں وضاحت بھی کی گئی یہ ٹیوب ویل پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف او رپنجاب بھر کے وزیراعلیٰ خادم اعلیٰ شہباز شریف کی خاص ہدایات پر نصب کیا جا رہا تھا۔ اس کا تمام تر سہرا پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور بلال یاسین کے سر جاتا ہے اور یقینا ٹیوب ویل لگانے کا مقصد بھی عوام الناس کو پانی فراہم کرنا ہوتا ہے پھر یہ کیا ہو ا کہ بنیا دکی تختی تو ابھی تک ”منہ چڑا“ رہی ہے مگر بنیاد نجانے کدھر چلی گئی۔
ہمارے ہاں اکثر صاحبان کا یہی شیوہ ہے کہ وہ نمائش کے لئے اپنے نام کی تختی لٹکا دیتے ہیں اور اخبارار میں تشہیر کروا دی جاتی ہے، میڈیا میں بار بار نشر کیا جاتا ہے لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد جب عوام اس بات کو بھول جاتے ہیں تو اس کام کو کھٹائی میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہ فنڈزجو حکومت انہیں سرکاری خزانے سے ادا کرتی ہے، وہ ان کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ یہ رقم ہڑپ کر لی جاتی ہے یا بیرونی ممالک کے بینکوں میں ڈال دی جاتی ہے یا پھر اپنے رشتہ داروں کے نام منتقل کر دی جاتی ہے یا پھر کاروبار میں لگا کر اسے چمکا دیا جاتا ہے ۔
حیرت کا مقام یہ ہے کہ اس تختی پر وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب کا نام درج ہے لیکن اس کے باوجود تختی کسی کھنڈر کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو ذمہ داران عوام کو پانی فراہم نہیں کر سکے وہ عوام کی دیگر مشکلات کو کیسے حل کرسکتے ہیں؟ جو صاحبان عوام کو بنیادی سہولتیں نہیں دے سکتے ، وہ بھاری بھرکم تنخواہیں لے کر عہدوں پر براجمان کیسے رہتے ہیں؟
عوامی نمائندہ وہ ہوتا ہے جو عوام کی مشکلات کو سمجھے اور انہیں حل کرنے کی تگ و دکرے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اکثر صاحبان نے نہ تو عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے ملک کی ترقی او رخوشحالی کا سوچا ،نہ عوام کی فلاح و بہبود پر کام کیا۔ انہوں نے صرف اپنی بہبود کے متعلق سوچا۔جس کا عوام کے ساتھ دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا وہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے اور اس رقم کو بڑھاکر اپنی طاقت او ردھونس عوام پر جمانے کے لئے آتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں دندناتے پھرتے ہیں کہ وہ عوامی نمائندے ہیں۔عوام کے لئے خدمات تو بھاڑ میں گئیں، وہ اپنی ذاتی خدمت پر مامور ہوجاتے ہیں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ بظاہر عوام کی بہبود کے لئے اس طرح کے کئی منصوبے حکومت سے منظور کروائے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ حکومت کے نمائندے خود اس طرح کے منصوبے منظور کروا کر لے کر آتے ہیں او رسب کی ملی بھگت سے اس کی منظوری دی جاتی ہے اور فنڈز بھی مہیا کر دیئے جاتے ہیںلیکن یہ فنڈ ان نمائندوں کی جیبو ںیا پھر ان کے بینکوں میں چلے جاتے ہیں اور یہ منصوبہ تختی لٹکنے کے باوجود ادھورے کا ادھورا رہ جاتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے عوام اتنے بھولے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں پھر انہی لوگ کو آگے لے آتے ہیں یوںعوام پھر ان کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرلیتے ہیں جو ملک و قوم کے لئے بہتر نہیں ہوتے ۔
ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے بارے میںنہ سوچیں بلکہ ملک او راس کے عوام کے بارے میں بھی سوچیں تاکہ ملک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کھیل کب تک یونہی چلتا رہے گا؟اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جسے اختیار ملتا ہے وہ عوام کی خدمت تو برائے نام کرتا ہے مگر اپنے اور اپنے خاندان کی خدمت زیادہ کرتا ہے۔ اپنی مدت پوری کر کے چلا جاتا ہے پھر اسی طرح دوبارہ الیکشن ہوتا ہے پھر کوئی دوسرا آتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کھا کما کر چلاجاتا ہے۔ ہم عوام ہیں کہ ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ اب ہمیں ہوش اور عقل سے کام لیناہو گا۔ عوام کو ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہئے جو ملک و قوم کے حقیقی ہمدرد ہوں۔ملک کے لئے دل و جان سے کام کریں اور عوامی خدمت کو اپنا نصب العین سمجھیں، سچے محبِ وطن ہوں، اسی وقت ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے ۔