”کس جرم کی پاداش میں ملتی ہیں سزائیں“
حال ہی میں خبر ملی کی ایک خاتون کیچڑ زدہ راستے پر چلتے ہو ئے غیر مر ئی گڑ ھے میں گر گئیں
تسنیم امجد ۔ریاض
وطن عز یز کی مو جو دہ صورت حال دیکھ کر اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے۔ایک آزاد ملک کے آزاد شہری، معا شی تنگ دستی ،بے روزگاری اور بنیادی سہو لتو ں کی عدم دستیابی کے ہا تھو ں مصا ئب کا شکار تو ہیں ہی لیکن اس کے سا تھ سا تھ ذرا ئع آمد و رفت کی نا گفتہ بہ حالت نے مز ید پریشا ن کر رکھا ہے ۔یہ کسی بھی ملک کے لئے ریڑ ھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ملکی معیشت میں ان کا اہم کردارہوتا ہے۔ملک میں ریل اور ہوا ئی ذرائع بھی داﺅ پر لگے ہیں۔ہما رے ہا ں کی اکثر سڑ کیں بر طا نوی راج کے دور کی بنی ہوئی ہیں۔ہم مو ٹر وے اوردیگر ہائی وےز کو اپنی حکومت کی کا ر کر دگی کہہ سکتے ہیں۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویریں حکو متی تو جہ کی طالب ہیں۔لکھنے والے ان پر لکھتے چلے جا رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں :
” شایدکہ اترجائے ترے دل میں مری بات“
بلدیہ کی انتہائی غیر ذمہ داری کی وجہ کیا ہے ؟کوئی بتلائے کہ معصوم شہریوں کو کس جرم کی پاداش میں یہ سزائیں ملتی ہیں؟مسا ئل، ہماری پسما ند گی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
گو لیمار شہر کراچی کے پڑوس میں لیاری دریا کے قریب واقع ہے۔اس کا مو جو دہ نام گل بہار ہے۔واہ ! نام کی منا سبت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔یہ ایک لحاظ سے” ملٹائی نیشنل “یعنی کثیر قومیتی علاقہ ہے کیونکہ یہاںپنجا بی ،سندھی ،کشمیر ی ،سرا ئیکی ، پختون ،بلو چ ،میمن ، چترالی ، مہاجر اور بعض اقلیتیں بھی مقیم ہیں۔ گو لیما ر ، بظاہر” گو لی یعنی بلٹ اور مار یعنی فائر“ کا مرکب ہے لیکن سند ھی زبان کا لفظ ہے۔تاریخ بتا تی ہے کہ بر طا نوی دور میں یہا ں بڑی فو جی کا لو نی تھی۔اس علاقے کی پلا ننگ کی جا نب تب بھی کو ئی تو جہ نہیں دی گئی تھی۔ اس لئے یہ پسماندہ ہی رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد تو زمین کا چپہ چپہ آزادی کے گیت گنگناتا ہے۔ہر شخص سینہ تان کر چلنا اپنا حق سمجھتا ہے پھر نہ جانے کیو ں لا پر وائی برت کر اس احساس کی نفی کرنے کی کو شش کی گئی۔ایسے حالات کے لئے ہی تو شاید شاعر نے کہا ہے کہ :
مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ اےسے ناسک
جیسے کمرے سے کو ئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
وطن کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن زراعت کو ہی پسما ندہ چھوڑ دیا گیا ہے۔گزشتہ تعطیلا ت پر گا ﺅ ں میں کچھ زیادہ دن رہنے کا اتفاق ہوا تو گا ﺅ ں والو ں سے گفتگو کے بھی موا قع زیادہ ملے۔ وہ بیچارے زرعی میدان میں سہو لتو ں کے نا پیدہو نے کا رونا رو رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا انا ج شہرکی منڈی میں نہیں پہنچا سکتے کیو نکہ آمدو رفت کے ذرائع نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ہفتے میں صرف ایک دن شہر جانے والی گا ڑیا ں میسر ہو تی ہیں ۔شہر کے راستے اس مقصد کے لئے ہفتہ وار کھلتے ہیں۔مال زیادہ ہو نے کی وجہ سے ایک دن میں ترسیل نا ممکن ہوتی ہے۔ اس طرح اکثر اس کا بیشتر حصہ گل سڑ جاتا ہے ۔سال بھر کی محنت کو اس طر ح بر با د ہو تے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم صرف پیٹ بھر تے ہیں۔دو وقت کی رو ٹی مل جا ئے تو غنیمت ہے۔معیارزندگی کے بارے میں سوچنا ،باولے کی بڑ لگتی ہے ۔
ذرائع آمدو رفت پر ملک میں کام ہوا لیکن دیہی علا قو ں کو نظر انداز کیا گیا۔ایسے جیسے یہا ں کے باسیوں کو انسان ہی نہ سمجھا جاتا ہو۔ان کی کوئی خواہشیں ہی نہ ہوں۔کتنے ہی پنجسالہ منصوبے بنے لیکن وہ حکو متو ں کی تبدیلی کے باعث نا مکمل رہے یا ہد ف پورا نہ کر سکے۔زرعی معا شرہ شدید استحصال کا شکار ہے۔ کسا ن شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں۔اگر انہیں رسل و رسائل کی سہو لتیں میسر ہوں تو شاید یہ اپنے لئے نئی راہیں تلا ش کر لیں۔
اکثر شکا یتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اونچی نیچی ،کم چو ڑی اور گڑ ھو ں والی سڑ کو ں پر حادثات یقینی ہو تے ہیں۔غیر مناسب منصوبہ بندی کا اندازہ یہیں سے لگا لیجئے کہ بینکو ں کی جانب سے فراہم کردہ قر ضو ں کے عوض لو گو ں نے گا ڑ یا ں تو نکلو ا لیں ،سڑ کو ں پر رش بڑھ گیا۔ اس رش کے باعث آمد و رفت میں تاخیر ہونے لگی ۔ اس طر ح مسائل میں اضا فے کے سوا کچھ ہا تھ نہ آ یا۔کا ش ہمارے صا حبا ن اختیار عوا م کے مسائل کا احساس کر لیں۔ایسے کٹے پھٹے کیچڑ زدہ راستے ما یو س عوام میں یکجہتی کے فقدان کا با عث بھی بنتے ہیں۔اکثرکیچڑ کی چھینٹیں گریبانوں تک ہا تھ پہنچا دیتی ہیں اور گاہے نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
حال ہی میں خبر ملی کی ایک خاتون کیچڑ زدہ راستے پر چلتے ہو ئے غیر مر ئی گڑ ھے میں گر کر شدید زخمی ہو گئیں۔ریڑھ کی ہڈ ی دو جگہ سے ٹوٹ گئی۔ذرا سو چئے اس خا تو ن کا مستقبل کیا ہو گا ۔علا وہ ازیں جن گھروں اور دکا نوں کے سامنے کیچڑ سے لت پت سڑ کیں ہوں گی، ان کے مکینوں کا کیا حال ہو گا اور دکا نو ں کے کاروبار پر کیا اثرات مر تب ہو ں گے۔
ایک صا حب کا کہنا ہے کہ گز شتہ روز میرے بچوں نے ضد کی کہ بر گر کھا نے چلیں۔جب دکان کے آگے گئے تو کیچڑ کی بدبو کے باعث میں نے گا ڑی مو ڑ لی۔ذرا سوچئے مچھر مکھیو ں کی آما جگاہ کے اثرات کہا ں کہا ں تک پہنچتے ہو ں گے۔اسی طر ح گلی محلوں کی گند گی کا کوئی پر سا ن حال نہیں۔نا لیو ں سے ابلنے والا غلیظ پا نی حفظان صحت کے اصو لو ں کی کس طر ح نفی کر تا ہے۔
وطن عز یز تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہا ں تر قی کا پہیہ گھوم نہیں رہا بلکہ سر ک رہاہے۔ما حو ل شخصیت کی تعمیر میں اہم کر دار ادا کرتا ہے ۔عوام قا نون شکن ہیں ،اس شکا یت کی تو حکو مت مجا ز نہیں۔گند گی سے الر جی ،دمہ اور نہ جا نے کون کون سی بیمار یا ں عوام کو مزید بے بس کر ڈالتی ہیں۔بیو رو کریسی بھی اپنی کر سی بچا نے کے لئے سر کار کی بڑ ی بڑ ی گا ڑ یو ں کا ر خ ان علا قو ں کی جا نب نہیں مو ڑ تی۔صفا ئی کے ذمہ دار بھتہ خو ری کے ہا تھو ں”کا نے“ ہیں۔بھتہ انکی زند گی میں کسی نشے کی طرح داخل ہو چکا ہے ۔با رش کے مو سم میں سبز ی منڈ یو ں کا حال نا گفتہ بہ ہوتاہے۔تا زہ سبز یا ں کیچڑمیں لت پت کپڑ ے سے پو نچھ کر سجا دی جا تی ہیں۔بد بو اور مکھیو ں کا چا ر سو راج ہو تا ہے۔ا حساس ذمہ داری کا فقدان تما م مسائل کی جڑ ہے۔اصلا ح نا ممکن ہو تی جا رہی ہے۔
ہمارامعا شر تی المیہ یہ بھی ہے کہ ہم بصد افتخار دیدہ دلیری کے ساتھ منا فقت سے کام لیتے ہو ئے اپنے قو ل و فعل میں تمیز کر ہی نہیں پاتے اور یہی وجہ ہے ہما رے ابتر حالات کی ۔ہم پہلی دنیا میں جا کر نہا یت مہذب بن جا تے ہیں۔وہا ں کے قوا نین کا احترام دل و جان سے کرتے ہیں، آخر کیو ں؟جواب ہر ذی شعور کے پاس وا ضح ہو گا۔شا ہراہیں کسی بھی ملک کی اقدار کی تر جما نی کر تی ہیں۔جب ملک کے بڑ ے شہر کا پر سا ن حال کو ئی نہیں تو اس کے مختلف علا قو ں پر نظر کرم کیسے ہو گی ؟
یو م آزادی کو کس طر ح منا نا ہےز، اس کی تیا ریا ں ابھی سے شرو ع کر دی گئی ہیں۔کاش وطن کی تو قیر میں نغمے الاپ کر ہم خود کو فر ض شنا س ثابت کرنے کی ناکا م کو شش نہ کریں۔حب الو طنی کے تقا ضے کچھ اور ہی ہیں۔ہمارے قا ئد قوم سے شا کی ہیں۔وطن عز یز جن قربانیوں سے حاصل کیا گیا اس کا ذرا سا بھی حق ہم ادا نہیں کر سکے۔قو می نغمے گا کر کیا ہم حب ا لو طن کہلا سکتے ہیں ؟
طبقہ بندی نے بھی زند گیا ں اجیرن کر رکھی ہیں۔یہ وبا اب گھر گھر پہنچ چکی ہے ۔ میں اور دوسرا کو ئی نہیں، اس سو چ نے رہی سہی کسر پو ری کر دی ہے۔ہماری ز ند گیا ں اسی گھن چکر کے گرد گھو م رہی ہیں۔ کام چلا ﺅ اور وقت ٹپا ﺅ ،کی پا لیسی نے کہیں کا نہیں رکھا۔کاش اب بھی ہمیں ہوش آ جائے اورہم یکجہتی سے اپنے حقوق کا تحفظ کر یں۔ایک حالیہ خبر کے مطا بق گو لیمار کا انڈر پاس جو 8 میٹر چو ڑا اور375 میٹر طویل ہوگا،مکمل ہو نے کو ہے ۔یہ عوام کیلئے سہو لت کا باعث ہو گالیکن کیا یہ گلی محلو ں کی صفا ئی میں بھی ممد ہو گا ؟