” کبھی جو آئنہ دیکھیں تو کیا سے کیا ہوئے ہم“
ڈاکٹر فضل کریم بیبانی کی میزبانی،ڈاکٹرخورشید رضوی کی صدارت، شہزاد اعظم کےساتھ شام
ادب ڈیسک۔جدہ
طنز و مزاح کے معروف شاعر ڈاکٹر محمد سعید فضل کریم بیبانی کی اقامت گاہ پر معروف شاعر، ادیب، کالم نگار اور صحافی شہزاد اعظم کے ساتھ ایک شام کا انعقاد کیا گیا جسکی صدارت عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب ، محقق اور ستارہ¿ امتیاز کے حامل پروفیسر خورشید رضوی نے کی۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جسکی سعادت میزبان ڈاکٹر بیبانی نے حاصل کی۔
محمد عامر نے دلکش انداز میں نعت طیبہ سنائی۔ اس موقع پر ڈاکٹر بیبانی نے شہزاد اعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انکی شعری اور نثری تخلیقات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اعظم کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہے۔وہ چلتی پھرتی للغات ہیں۔ علم عروض میں زبردست مہارت رکھتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی انکا شیوہ ہے۔ انہیں شہرت اورنمود سے چڑ ہے اس لئے بہت کم مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں مگر پس پردہ رہ کر شعر و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ اس موقع پر شہزاد اعظم نے اپنے اردو کالم نیز سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری بھی سنائی۔کراچی کے قدیم اور موجودہ حالات پر لکھا گیا ان کا انشائیہ بالخصوص پسند کیا گیا جس میں انہوں نے ماضی کے قدیم اور پرسکون کرا چی کا آجکل کے حالات سے موازنہ کیاتھا۔ یہ کالم پڑھتے ہوئے وہ خود بھی جذباتی ہو گئے اور سامعین مغموم ہوئے۔اس موقع پر معروف شاعراطہر عباسی اور نعیم بازید پوری نے شہزاد اعظم کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔
٭٭اطہر عباسی:
روشنی، نوک قلم، صاحب شام کے نام
حرف سب مثل ارم ، صاحب شام کے نام
جسکا ہر لفظ حسیں اسکے پیکر میں ڈھلے
اک مقالہ ہو رقم، صاحب شام کے نام
دیکھئے شانِ سخن، سارے اسلوب جواں
ہو گئے فکر میں ضم، صاحب شام کے نام
ذکر افکارو شناسائی تو سب ہی نے کیا
کیجئے شام بہم، صاحب شام کے نام
منزل حق کیلئے جو بھی ہیں نقش قدم
سارے ہی نقش قدم، صاحب شام کے نام
شعر گوئی ہے کرم ،رکھ لیا اس نے بھرم
شعر جو کہہ گئے ہم، صاحب شام کے نام
شام سے رات تلک قلب اطہر کی دعا
سایہ¿ ابر کرم، صاحب شام کے نام
جناب نعیم بازید پوری نے بھی شہزاد اعظم کو منظوم خراج پیش کرتے ہوئے ان پر لکھی ہوئی ایک نظم سنائی:
بات سب چٹکلے ، لیتے ہیں سب مزے، ہر طرف قہقہے ، بزم آباد ہے
سب کے لب پر ہنسی، سب کے دل میں خوشی، تازگی زندگی، ہر کوئی شاد ہے
کیسے جملے ہیں یہ، کیسے فقرے ہیں یہ، لوحِ ایام پر، لگ رہا ہے یہی، نقشِ بہزاد ہے
..................شام شہزاد ہے
چہرے تصویر ہیں، آنکھیں تنویر ہیں،حرف تفسیر ہیں، وجہِ توقیر ہیں
ہنستے گاتے ہوئے، مسکراتے ہوئے، دل میں اپنے لئے، جذبِ تعمیر ہیں
جو بھی بیٹھا ہے یاں، شادماں ، شادماں، صورتِ نفسِ جاں، ردِ افتاد ہے
..................شام شہزاد ہے
اک طرف ہے عیاں، ہفت رنگی” دھنک “اور” دمپخت“ کی ایک سو ہے مہک
حرف میںہے لچک، بات میں ہے نمک، دل میں ہے درد اور میٹھی میٹھی کسک
آج لگتا ہے جیسے کہ چاروں طرف، حرف و معنی کی دنیا ہی آباد ہے
..................شام شہزاد ہے
محفلِ دوستاں یونہی قائم رہے اور ہر آن جاری و ساری رہے، تازہ کاری رہے
پھول کھلتے رہیں، کلیاں ہنستی رہیں،لہلہاتی یہ فصلِ بہاری رہے ، تازہ تازہ ہمیشہ کیاری رہے
ملتے جلتے رہیں، دل میں کچھ نہ رکھیں اور کھُلتے رہیں دوستی کی یہی ایک بنیادہے
..................شام شہزاد ہے
تقریب کے دوسرے حصے میں عام مشاعرہ ہوا جس میں گرمیوں کی تعطیلات کے باوجود متعدد معروف شعرا ءنے حصہ لیا جبکہ مونا نجمی کے والد امین نجمی نے مونا کا کلام پڑھ کر سنایا:
٭٭مونا نجمی:
دلِ حساس کو جب راستے ہموار لگتے ہیں
محبت کے سفر پھر اور بھی دشوار لگتے ہیں
نظر کے سامنے رہتا ہے جب جب آئنہ موجود
ہم اپنے آپ سے ہی برسر پیکار لگتے ہیں
چھڑائیں کیسے پیچھا ہم بھلا ماضی کی یادوں سے
گئے لمحات ہم کو سایہ دیوار لگتے ہیں
بدل دیتے ہیں ہر مفہوم یہ تیری صداو¿ں کا
سماعت کے یہ در ہم کو بڑے فنکار لگتے ہیں
کوئی موسم ہو آنکھوں سے کبھی باہر نہیں آتے
مجھے مونا مرے انسو بھی پردہ دار لگتے ہیں
٭٭افسر بارہ بنکوی:
جھانک لیتے ہیں دل کے اندر بھی
دور رہئے گا دوربینوں سے
جن کو دل میں چھپا کے رکھا تھا
آج نکلے وہ آستینوں سے
تمکو رغبت نہیں فقط مجھ سے
روز ملتے ہو مہ جبینوں سے
کیسے نقطہ لگایا جاتا ہے
درس ملتا ہے نکتہ چینوں سے
بن کے دہقان جان جاو¿ گے
کیا نکلتا ہے ان زمینوں سے
٭٭زمرد سیفی:
جواں عصر نو کے کیا مانگتے ہیں
محبت کا اپنی صلہ مانگتے ہیں
وفا سے ہے نا آشنا جنکی فطرت
وہی دوستوں سے وفا مانگتے ہیں
خبر پھر کہاں اپنی رہتی ہے ہمکو
ہم انکے لئے جب دعا مانگتے ہیں
سوالی ہیں جس در کے لاکھوں کروڑوں
اسی در سے ہم بھی شفا مانگتے ہیں
سلامت ہیں ماں کی دعاو¿ں کے صدقے
سلامت رہے ماں، دعا مانگتے ہیں
٭٭عرفان بارہ بنکوی:
کہاں یہ شرط رکھی تھی کہ تم دلدار ہو جانا
یہی بس التجا تھی تم مرے غمخوار ہو جانا
مرے دل کو سکوں دینا نظر کے سامنے رہ کر
کہا تھا تم سے کب میں نے گلے کا ہار ہو جانا
گلہ کوئی نہیں تم سے کہ تم میرے نہ ہو پائے
کسی کے تم مگر اے جان جاں دلدار ہو جانا
خدا نے فطرتِ زن میں عجب یہ وصف رکھا ہے
کبھی ہو جانا شاخ گل ،کبھی تلوار ہو جا نا
ادا یہ زندگی کی یہ ہمیں اچھی نہیں لگتی
کبھی آسان ہو جانا کبھی دشوار ہو جانا
سیاست آج کی ہمکو یہی تعلیم دیتی ہے
ہزاروں سازشیں کر کے پس دیوار ہو جانا
٭٭احمد فاروقی:
فریب فکر و نظر خود ہی کھا رہا ہوں میں
ترے خیال سے دامن بچا رہا ہوں میں
جو میں نے پوچھا کہ رخ پر نقاب کیوں ہے حضور
تو ہنس کے بولے تجھے آزما رہا ہوں میں
وہ احتجاج پہ تیر ِنظر کے یوں بولے
اک انقلاب ترے دل میں لا رہا ہوں میں
نہیں ہے آخری ہچکی، نہیں یہ وقت نزاع
زہے نصیب انہیں یاد آ رہا ہوں میں
وہ کیسی شان سے آتے ہیں غمکدے پہ مرے
کہ انکی راہ میں آنکھیں بچھا رہا ہوں میں
نہ چھیڑ اے غم ہستی نہ چھیڑ تو مجھ کو
کسی کو بادہ¿ الفت میں پلا رہا ہوں میں
٭٭ڈاکٹر محمد سعید فضل کریم بیبانی:
اتنی اونچائی پہ مت اڑ کہ ہوا بھی نہ ملے
منزلیں ایک طرف، اپنا پتہ بھی نہ ملے
ضد نہ کر اتنی پس قتل کہ لینا ہے قصاص
بعد میں ایسا نہ ہو خون بہا بھی نہ ملے
تپتے صحراو¿ں میں ہی ڈھونڈ لی اپنی منزل
اب تو اس ریت سوا چین ذرا بھی نہ ملے
کس پہ جھاڑے گا اے فرعون تو فرعونیت
ظلم کرنے کو اگر خلق خدا بھی نہ ملے
کیا ہوائیں بھی کوئی بیچ گیا راتوں رات
صبح کے وقت کیوں باد صبا بھی نہ ملے
گھر سے نکلے ہیں تو پھر جاری ہی رکھیں گے سفر
خواہ رستہ نہ ملے ، راہنما بھی نہ ملے
عشق کا جرم بھی بیبانی کیا تم نے اور
چاہتے ہو کہ تمہیں کوئی سزا بھی نہ ملے
ڈاکٹر محمد سعید بیبانی نے اپنی شہرہ آفاق مزاحیہ نظم "لڑکیوں کا کرکٹ میچ" بھی سنائی۔
٭٭مہتاب قدر:
جب چٹکتی ہے کلی، پھول مہک اٹھتا ہے
اپنے لٹ جانے کا ماتم ہے گلوں کی خوشبو
ہم نے سینے میں اسے بسنے دیا ہی کب ہے
تیری یادوں سے بہت کم ہے گلوں کی خوشبو
٭٭اطہر عباسی:
کل کا غم آج میں کھو جاتا ہے
روز اک سانحہ ہو جاتا ہے
صبح دم خون کے آنسو پی کر
دل سر شام ہی سو جاتا ہے
ذکر کیا سوختہ سامانی کا
دکھ نئے روپ میں کھو جاتا ہے
حال دل اسکو سنائیں کیسے
وہ تو اشعار میں کھو جاتا ہے
ایک لمحے کا تعلق دل سے
حاصل عشق بھی ہو جاتا ہے
ہائے افسوس زمانہ اطہر
حادثہ دیکھ کے سو جاتا ہے
٭٭نعیم بازید پوری:
فسون ِدیدہ ہائے تر، سمندر
تری آنکھوں کا پس منظر سمندر
بنا پھرتا ہے نیلا سب کے آگے
فلک کی اوڑھ کر چادر سمندر
زمیں پر حملہ آور ہو گیا ہے
زمیں کی گود میں پل کر سمندر
سکوں ملتا ہے اسکے پاس آ کر
رہا ہو جیسے اپنا گھر سمندر
٭٭شہزاد اعظم:
اُس آنکھ سا ہم نے کبھی منظر نہیں دیکھا
دریا کے مکینوں نے سمندر نہیں دیکھا
پردیس ہے وہ عالم عشرت جہاں رہ کر
سب دیکھ لیا ہم نے مگر گھر نہیں دیکھا
کیا پوچھتے ہو شہرِ خموشاں کی روایت
پردیس میں تنہا کبھی رہ کر نہیں دیکھا؟
٭٭٭
زرخیز ہے مٹی اسے نم کرتے رہیں گے
اونچا تری عظمت کا علم کرتے رہیں گے
ہم یونہی سجائیں گے سدا بزم تکلم
تاریخ کے اوراق رقم کرتے رہیں گے
اردو سے محبت تو وراثت میں ملی ہے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
٭٭٭
گوری چٹی لڑکی کا بھی نام شبانہ ہو سکتا ہے
پنجابی میں غبارے کا نام پکانہ ہو سکتا ہے
لڑکے والوں کا لڑکی کے گھر بھی جانا ہو سکتا ہے
لڑکے اور لڑکی میں کوئی ربط پرانا ہو سکتا ہے
ہر گھنٹے میں لا کر مجھ کو ایک کنستر پانی دو
شہر کراچی میں الفت کا یہ پیما نہ ہو سکتا ہے
٭٭٭
ہر اک مشکل میں جینا جانتے ہیں
پھٹے دامن کو سینا جانتے ہیں
یہ پاکستان کے شہری عجب ہیں
غم سفاک پینا جانتے ہیں
ہزاروں ظلم سہہ لیتے ہیں لیکن
محبت کا قرینہ جانتے ہیں
کبھی گمراہ ہوتے ہی نہیں ہیں
یہ جہلم ہے، وہ دینہ جانتے ہیں
ہے بالی وڈ، حسیناو¿ں کا جنگل
وہ کترینہ، کرینہ جانتے ہیں
کتابوں میں نہیں لکھا یہ نسخہ
ملا سینہ بہ سینہ جانتے ہیں
٭٭پروفیسر خورشید رضوی :
یہ جو ننگ تھے، یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پڑا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے، مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی، وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے، مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے، مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہِ دام تھے، مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھی عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
٭٭٭
فصیل ذات گری قید سے رہا ہوئے ہم
خیال قید کی وسعت سے آشنا ہوئے ہم
حصار لفظ میں آتا نہ تھا ملال دروں
زبان حال سے آ کر کہیں ادا ہوئے ہم
نظر کریں تہِ دل پر تو ہیں وہی کے وہی
کبھی جو آئنہ دیکھیں تو کیا سے کیا ہوئے ہم