یوپی سرکار اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ڈاکٹر کفیل کوقربانی کا بکرا بنا رہی ہے، اسے یہ بات برداشت نہیں ہورہی ایک مسلمان ڈاکٹر کوخراج تحسین پیش کیاجائے * * *معصوم مرادآبادی* * * اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے شہر گورکھپورکے سرکاری اسپتال میں زیر علاج 60سے زائد معصوم بچوں کی دردناک موت نے پورے ملک میں کہرام مچادیا ہے۔ یہ بچے یہاں جاپانی بخار کے علاج کیلئے داخل تھے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ اموات اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہیں کیونکہ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کو کئی مہینے سے ادائیگی نہیں کی گئی تھی اور اس نے اسپتال کو سپلائی بند کرنے کی وارننگ دی تھی۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر بی جے پی کے صدر امت شاہ تک سب اس معاملے سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کوئی بھی اس دردناک سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس قسم کے بیانات دیئے گئے ہیں جس سے مرنے والے بچوں کے والدین کے زخموں پر نمک پاشی ہوئی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے ان بچوں کی موت پر دکھ کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ یوم آزادی کے خطاب میں اسے ایک قدرتی آفت سے تعبیر کرنے کی ناکام کوشش کی البتہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے اس معاملے میں یوپی سرکار کو نوٹس جاری کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ غریب اور بے سہارا بچوں کی خدمت کے لئے نوبل انعام پانے والے سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی نے گورکھپور کے سرکاری اسپتال میں بچوں کی اموات کو اجتماعی قتل سے تعبیر کیا ہے اور اپوزیشن نے اس معاملے میں یوپی کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر صحت سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ یوپی سرکار نے اس سانحہ کی تحقیقات کا حکم جاری کردیا ہے لیکن ساتھ ہی اسے کچھ قربانی کے بکروں کی بھی تلاش ہے جن کی گردن ناپ کر وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتی ہے۔ حکومت نے گورکھپور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کفیل خان کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ساری ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
یہ وہی ڈاکٹر کفیل ہیں جنہوں نے آکسیجن کی کمی کے دوران ساری رات دوڑ دھوپ کرکے کسی نہ کسی طرح بچوں کو آکسیجن فراہم کی اور کئی بچوں کی جانیں بچائیں۔ جس روز اس سانحہ کی خبریں اخبارات کی زینت بنیں، اسی روز یہ خبر بھی بیشتر اخبارات میں شائع ہوئی کہ ڈاکٹر کفیل نے فرشتہ بن کر خود اپنے طورپر 12سلنڈروں کا بندوبست کیا لیکن جیسے ہی وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا پہلا شکار ڈاکٹر کفیل ہی بنے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بچوں کی اموات کے معاملے میں یوگی سرکار کی مذمت ہورہی ہو اور ایسے میں ایک مسلمان ڈاکٹر ہیرو کے طورپر سامنے آئے۔ وزیراعلیٰ یوگی کے دورے کے فوراً بعد ہی ڈاکٹر کفیل کو وائس پرنسپل کے عہدے سے برخاست کردیاگیا۔ ان پر متعلقہ شعبے کے انچارج کے طورپر لاپروائی برتنے کا الزام ہے۔ اتنا ہی نہیں وزیراعلیٰ یوگی نے اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کفیل پر ناراضگی ظاہر کی اور کہاکہ چند سلنڈر اکٹھا کرکے وہ ہیرو بننے کی کوشش نہ کریں۔ اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد نہ تو ڈاکٹر کفیل نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی اسپتال کی انتظامیہ کچھ کہنے کو تیار ہے تاہم اس کا جواب ایس ایس بی (سرحدی محافظ دستہ) کی وہ رپورٹ ہے جو اس نے اپنے ہیڈ کوارٹر کو بھیجی ہے۔
اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خود چل کر مدد مانگنے آئے تھے ۔ اسکے بعد ایس ایس بی نے اپنا ایک ٹرک دیا۔ اس سے شہر کے الگ الگ اسپتالوں اور گوداموں سے آکسیجن سلنڈر لائے گئے۔ اتنے بڑے بحران میں مریضوں کی مدد کیلئے کالج کے شعبہ امراض اطفال کے اسسٹنٹ پروفیسر اور متعلقہ وارڈ میں نوڈل افسر کا کام کررہے ڈاکٹر کفیل 2دن تک تو ہیرو بنے رہے لیکن وزیراعلیٰ کے دورے کے بعد اچانک ولن بن گئے اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیاگیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ کی ناراضگی کے بعد ہی ہٹایاگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ڈاکٹرکفیل کی کردار کشی کیلئے طرح طرح کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ محکمہ صحت کے افسران یہ کہہ رہے ہیں ڈاکٹر کفیل نے ہیرو بننے کیلئے پورا ڈرامہ رچا تھا۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ آخر وہ سلنڈر کہاں سے لائے۔ ان پر پرائیویٹ مطب چلانے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔ ڈاکٹر کفیل کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن اور آل انڈیا انسٹیٹیوٹ برائے میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹروں نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایاجارہا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مقامی انتظامیہ کی تحقیقاتی رپورٹ میںڈاکٹرکفیل کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے قبل اخبارات میں ڈاکٹر کفیل کے حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی تھیں، ان میں واضح طورپر لکھا ہوا تھا کہ جمعرات کی رات تقریباً 2بجے اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی اطلاع ڈاکٹر کفیل کو ملی۔
وہ آناً فاناً اپنے دوست کے پاس پہنچے اور وہاں سے آکسیجن کے3 بڑے سلنڈر اپنی گاڑی میں لاد کر رات 3 بجے سیدھے بی آر ڈی اسپتال پہنچے۔ ان سلنڈروں سے بچہ وارڈ میں تقریباً 15 منٹ تک آکسیجن کی سپلائی ہوسکی۔ رات بھر کسی طرح سے کام چل پایا لیکن صبح 7 بجے آکسیجن ختم ہوتے ہی ایک بار پھر متاثرہ بچوں کی جان پر خطرہ منڈلانے لگا۔ اسپتال کا عملہ پریشان ہو اُٹھا تو ڈاکٹر کفیل نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ دے کر مزید سلنڈروں کا انتظام کیا۔ مصیبت کے وقت متاثرہ بچوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر کفیل خان کے اس کردار کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے لیکن یوپی سرکار اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔ اسے یہ بات قطعی برداشت نہیں ہورہی کہ ہندتو کی علمبردار یوگی سرکار اپنی نااہلی کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو اور اس سانحہ کے وقت انسانیت کی لاج رکھنے والے ایک مسلمان ڈاکٹر کو ہرطرف سے خراج تحسین پیش کیاجائے۔ گورکھپور اسپتال کا سانحہ دراصل سرکاری مشینری میں پھیلے ہوئے بھیانک کرپشن کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اسپتال کے جس پرنسپل کو آکسیجن سلنڈر سپلائی کرنے والی کمپنی کا 69لاکھ روپے کا بل پاس کرنا تھا، وہ اس کیلئے2لاکھ روپے کی رشوت مانگ رہا تھا۔ کمپنی نے رشوت دینے سے انکار کیا تو مذکورہ پرنسپل نے بل پاس نہیں کیا لہٰذا کمپنی نے اسپتال کو وارننگ دے کر آکسیجن کی سپلائی روک دی جس کے نتیجے میں یہ دردناک سانحہ رونما ہوا۔