کراچی اور حیدرآباد کیلئے 30ارب روپے کی امداد سے اسے پکی پکائی کھیر مل گئی،اسے اور کیا چاہئے تھا، اتنی خطیر رقم شہری حکومت کے تحت خرچ ہوگی
* * * صلاح الدین حیدر* * **
عنوان بے معنی نہیں ہے۔ ایک ایسی تنظیم جو 37 سال تک پاکستان کے جنوبی حصّے سندھ کے شہری علاقوں کی بلاشرکت غیرے مالک بنی رہی، لیکن پچھلے دو چار برسوں سے مصیبت میں مبتلا ہے، ایک بار پھر اپنا سکّہ جماتی نظر آرہی ہے۔ کہتے ہیں نا کہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی تو تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود وہ اپنی صفوں میں چاروں طرف سے سازشیوں کو نظرانداز کرکے لگتا ہے ایک بار پھر سے بلندیوں کی طرف مائل بہ پرواز ہے، اسے غیبی مہربانیاں کہیں یا کچھ اور کہ اُس سے مرکزی حکومت کی طرف سے 25 ارب روپے کی امداد کا وعدہ کرلیا گیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے ہٹادیئے گئے۔
اُن کی جگہ قومی اسمبلی کے رکن شاہد خاقان عباسی نے لی۔ پاکستانی آئین کے تحت نامزد وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑتا ہے۔ یہ بذریعہ انتخاب ہوتا ہے۔قومی اسمبلی میں ارکان نئے وزیراعظم کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں،۔ جب شاہد خاقان عباسی کو اس اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو مسلم لیگ (ن) کو خدشہ تھا کہ کہیں اُس کے کچھ ارکان ٹوٹ کر حزب اختلاف یا پیپلز پارٹی سے نہ مل جائیں۔ احتیاطاً اُنہوں نے اپنے حلیفوں مولانا فضل الرحمن اور ملی عوامی پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم کو بھی پیغام بھیجا جو پنجاب کے وزیراعلیٰ یا نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے ذریعے ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو فون پر دیا گیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے۔ایم کیو ایم مسائل سے دوچار تھی۔ اُس کی صفوں میں انتشار پھیل چکا تھا، ایک کے بجائے4 ایم کیو ایم بن چکی تھیں۔ فاروق ستار نے (ن) لیگ کی دعوت کو موقعۂ غنیمت جانا اور کچھ گفت و شنید کے بعد شاہد خاقان عباسی کی حمایت کا اعلان کردیا۔
یہ درست کہ ایم کیو ایم نے نواز شریف کو پانامہ کیس کے دوران مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا، لیکن بدلی ہوئی صورتحال میں جب ایک وزیراعظم عہدے سے نااہل قرار دے دیے گئے تو اُس کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں صوبے کی برسراقتدار پیپلز پارٹی نے عجیب ہی دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگادیا گیا اور سندھ کے وزیراعلیٰ نے ہر کام کا خود ہی بیڑا اُٹھالیا۔ یہاں تک کہ کراچی کے بھی مالک بن بیٹھے۔ یہ میرا بھی شہر ہے، میں نے یہاں تعلیم مکمل کی، انجینیئر بنا، شہر کی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی، تو اب میں اس شہر کی ترقی کا ضامن ہوں، اس کی کھوئی ہوئی روشنیوں کو بحال کروں گا۔ کہنا تو ایسا تھا لیکن راہ میں رکاوٹیں بے شمار۔
وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ گلیوں گلیوں چکر لگاتے رہے۔ کبھی یہ ترقیاتی پروگرام کبھی وہ منصوبہ، سب کچھ اُن کی مرضی کے تابع ہوکر رہ گیا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخابات کے وقت ایم کیو ایم نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ شرائط رکھیں، جو اصولوں پر مبنی تھیں۔ اُنہیں وزارت یا عہدوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، لیکن کراچی، حیدرآباد اور دوسرے شہروں (جہاں سے اُسے ووٹ ملتے ہیں) کا خیال رکھنا لازمی بات تھی۔ گورنر سندھ کے ذریعے بات چیت ہوئی اور شاہد خاقان عباسی نے کراچی کیلئے اسمبلی سے منظور ہوئے بجٹ اور قومی فنانس کمیشن کے تحت ملنے والی رقم کے علاوہ 24 ارب روپے شہرِ قائد اور 5 ارب روپے حیدرآبادکی ترقی کے لیے مختص کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ سرعت کے ساتھ اس رقم کو کابینہ سے منظور بھی کروا ڈالا۔
ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق، اُنہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ حکومت میں علیحدہ سے منظور کی جانے والی رقم یا منصوبوں پر خرچ کیا جانے والا پیسہ حکومتی اداروں سے کئی مراحل میں منظور کیا جاتا ہے، اُن میں نیشنل اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی، سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی بھی شامل ہیں، اُن سب سے منظوری وہ خود ہی لے کر دیں گے۔ ایم کیو ایم کو پکی پکائی کھیر مل گئی تھی اُسے اور کیا چاہیے تھا۔ اتنی خطیر رقم سندھ حکومت کے اکائونٹ میں جانے کے بجائے شہری حکومت کے تحت خرچ کی جائے گی۔ گورنر سندھ اس کی مانیٹرنگ کریں گے، گویا پیپلز پارٹی کو بیک جنبش قلم رد کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ شاہد خاقان عباسی جب کراچی تشریف لائے تو نواز شریف کی ہدایت کے مطابق (ن) لیگ کے سابق رہنما غوث علی شاہ اور ایم کیو ایم سے ملے۔ لگتا یہی ہے کہ نواز شریف سندھ میں اپنی پارٹی کو دوبارہ منظم کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا حق ہے، لیکن ایسی صورت میں جبکہ سپریم کورٹ نے اُن پر سیاست میں حصّہ لینے پر تاحیات پابندی لگادی ہے، اُن کا جلسے جلوس کا پروگرام عجیب ہی لگتا ہے۔
ملک میں افراتفری پھیلنے کا خطرہ ہے اور کہیں خون خرابہ نہ ہو۔ اﷲ نہ کرے ایسا ہو، لیکن خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔ ایم کیو ایم کی مجبوریاں بہت ساری ہیں، وہ کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے، لیکن گورنر صاحب نے نئے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق 30 ارب روپے جو کراچی اور حیدرآباد میں ہسپتال، میڈیکل کالج، سڑکوں کی بحالی، 50 فائر ٹینڈرز (جس کی کمی کا شکوہ میئر وسیم اختر اکثر کرتے رہتے ہیں) کے لئے دیئے جائیں گے۔ گورنر سندھ کا یہ کہنا کہ کراچی کی ترقی اُن کا فرض اوّلین ہے، ہم سب کیلئے تقویت کا باعث ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کے عہدیداران اسے قبول نہیں کریں گے، لیکن اُس سے کیا ہوتا ہے، وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔ کراچی کا حال بُرا ہے، سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کا وارث کوئی نہیں۔
کوئی تو ہو جو اس پر توجہ دے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے وعدے وعید صرف خالی خولی ہیں، عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا، پھر رشوت خوری عام ہے، منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم، لوگوں کی جیبوں میں جارہی ہے۔ تو پھر یہ صورت حال صرف اور صرف ترقیٔ معکوس کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہے۔ سڑکوں کا بُرا حال ہے، منصوبے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں ایم کیو ایم نے خوبصورت حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن متحدہ قائدانہ صلاحیتوں سے ابھی تک محروم ہے۔ میں کسی کا نام لینا نہیں چاہتا مگر ایم کیو ایم کو خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ وقت نکل گیا تو پھر ’’چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ والی کہاوت ہی باقی رہ جائے گی۔