Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویسے تو لیڈیز فرسٹ، مگر قربانی میں بکری فرار ، بکرا اریسٹ

 
بکرے انسانو ں میں رہ کر ویسی ہی عادات اپنا لیتے ہیں کیونکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے
صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
ہرسال"عید قرباں"پر لوگ یہی کہتے ہیں کہ اب کے سال قربانی کے جانور بہت مہنگے ہیں اور یہ کہ ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جسے سن کر خریدار کے چھکے بھی چھوٹ سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ڈینگی وائرس کا تو علاج ممکن ہے مگر ہمارے ملک میں پھیلا مہنگائی کا وائرس لاعلاج ہے۔ یہ وائرس عام شہریوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اس کے باوجود عید قرباں پر ہر صاحب حیثیت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ قربانی کا فریضہ ادا کرے۔ عیدقرباں پر قربانی کے جانوروں کی اتنی عزت اور خدمت کی جاتی ہے کہ ان جانوروں کے مالکان کو بکرے، دنبے اور گائے وغیرہ جانور کم اورنوٹوں کے بنڈل زیادہ دکھائی دیتے ہیں ۔اسی لئے وہ اپنے جانوروں کو ایسی غذائیں کھلاتے ہیں کہ گائے پھول کر کپا ہو جاتی ہے تو بکرا شیر دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنے گاہکوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان جانوروں کو اصلی گھی ، بادام اور اخروٹ وغیرہ وغیرہ کھلا کر فربہ کرتے ہیں۔آپ ہی بتائیے کہ کیا خریدار نے ان گائے بیل اور بکروں سے دنگل کروانا ہے۔
ہمارے ہاں کیونکہ جعلسازی اور دھوکہ دہی سے کوئی شعبہ محفوظ نہیں تو لوگ جانور خریدتے ہوئے اس بات کی تسلی کرنا چاہتے ہیں کہ جانور عیب دار تو نہیں ،اس کی آنکھ ، دانت ، سینگ مصنوعی تو نہیں۔ اس کے باوجود لوگ چند روپوں کے لئے ایسی ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یوں تو ہر شعبے میں لیڈیز فرسٹ کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر قربانی کے شعبے میں صورتحال ایسی ہے کہ ذبح ہونے کے موقع پر بکری صاف بچ نکلتی ہے او رآخر بے چارے بکرے کو ہی آگے آنا پڑتا ہے گویا بکری فرار اور بکرا اریسٹ۔
ہمارے ہاں ویسے تو ہر رنگ اور نسل کے بکرے موجود ہیں مگر ان کی کچھ خاص قسمیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ بکرے انسانی خدوخال کے تو نہیں ہوتے مگر ان کی عادتیں یعنی خوبیاں انسانوں جیسی ہوتی ہیں کیونکہ بکروں کا زیادہ تر وقت انسانو ں کے ساتھ گزرتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ آج ہم ایسے ہی ”رنگ پکڑ“بکروں سے آپ کی ملاقات کراتے ہیں۔ یقینا آپ فوراً پہچان لیں گے۔ 
٭٭سیاسی بکرے: ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے۔ اپنی نام نہاد قربانیوں کا ذکر اپنی ہر تقریر میں کرتے ہیں۔ یہ سیاسی بکرے کسی بھی قسم کی قربانی خود نہیں دیتے بلکہ غریب عوامی بکروں سے قربانی مانگتے ہیںاور ان کو صبر کی تلقین کرتے ہیں کہ اگر بجلی نہیں ہے تو لالٹین جلا لو ، گیس نہیں ہے تو کیا ہوا لکڑی ،کوئلہ جلا کر کام چلاو۔ ان سیاسی بکروں کی آپس میں بھی نہیں بنتی ۔خواہ یہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، جہاں یہ لوگ موجود ہوں وہاں ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی منڈی میں ہیں جہاں مختلف بولیاں سنائی دیتی ہیں مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے قربانی مانگتا ہے۔ کرسی کیلئے یہ حضرات کچھ بھی کر نے کو تیا ررہتے ہیں اور اس سلسلے میں غریب عوام ان کا ہدف ہوتے ہیں۔
٭٭جمہوری بکرے: جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔یہ غریب عوام کو سبز باغ دکھانے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ ان جمہوری بکروں کے معدے بھی خاصے قوی ہوتے ہیں چنانچہ سب کچھ کھا جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ بس ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ یہ حکومتی کرسیوں پر بیٹھنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ان خود غرض بکروں کے وعدوں پر بے چارے عوام بار بار یقین کرکے پھر ان کو اپنے سر پر مسلط کر لیتے ہیں۔ ان بکروں کے بیانات سے عوام بھی سخت پریشان اور نالاں رہتے ہیں مگر یہ اپنی ضد اور خو نہیں چھوڑتے ۔ خود غرضی ،مفاد پرستی ان کا خاصہ ہے۔ یہ بکرے عوام کے برے مستقبل سے اتنا نہیں گھبراتے جتنا اپنے برے وقت سے ڈرتے ہیں۔ اسی خیال سے اپنا زیادہ تر مال اور محل غیروں کی سرزمین پر رکھتے ہیں۔ وہاں کی ہری ہری گھاس ان کو بڑی مرغوب ہوتی ہے۔ خودغرضی ، مفاد پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ کسی قسم کی قربانی دینے کی بات ہو تو یہ رسی تڑوا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اب رہے عقل سے عاری بھولے عوام جو بار بار ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں او رپھر یہ سوچ کر شاید صبر کر لیتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
٭٭غریب عوامی بکرے: اس قسم کے بکروں کے جسم لاغر وناتواں ہوتے ہیں ۔ ان میں کھال اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا گوشت فکر معاش اور پریشانیاں مل کر کھاجاتی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت ان کا خون نچوڑدیتا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں سیاسی امیدوار ان کو سبز باغ اور ہری ہری گھاس کا لالچ دے کر ووٹ کی قربانی مانگ لیتے ہیں مگر یہ قربانی ان کو راس نہیں آتی۔ ان کی قسمت میں روکھی سوکھی گھاس ہی لکھی ہوتی ہے البتہ سیاسی ورکروں کی قربانی ضائع نہیں جاتی کیونکہ وہ سارا وقت اپنے لیڈر کی چمچہ گیری ، خدمت گزاری او رسیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ظاہر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اس لازوال قربانی کی بدولت ان کو کافی مراعات حاصل ہوجاتی ہیں اور وزارتیں ان کی جھولی میں گرنے لگتی ہیں۔ یوں انکی دسوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔ 
٭٭سست ، کاہل اور لالچی بکرے: یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ سرکاری محکموں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ یہ قربانی دینا نہیں بلکہ لینا جانتے ہیں۔ ان سے کام نکلوانے کیلئے مال کی قربانی دینا لازمی ہوتی ہے۔ مال ملتے ہی یہ آپ کے کام جہاں کہیںبھی اٹکے ہوں،فٹا فٹ نکلوا دیتے ہیں۔ سرکاری محکموں کی چاندی ان ہی رشوت خور بکروں کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان کا پیٹ او ربٹوا دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ان میں قناعت بالکل نہیںہوتی۔ ان کا مشن یہی ہوتا ہے کہ کام کئے بغیر ان کو چارہ ملتا رہے۔ اسی وجہ سے وہ ”اوپر کے چارے“ کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان کے تعلقات تو ڈاکووں ، بھتہ خوروں سے بھی خوشگوار ہوتے ہیں کیونکہ آدھے مال کی قربانی وہ بآسانی دے ڈالتے ہیں۔ 
٭٭کاروباری بکرے۔یہ بکرے چاہتے ہیں کہ سارے کا ساراچارہ ہضم کر جائیں۔ یہ سب سے زیادہ مال بناتے ہیں لیکن انکم ٹیکس دیتے وقت ان کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھنے لگتے ہیں۔ 
٭٭سادہ لوح بکرے:یہ اپنے حال میں مست رہتے ہیں ، روکھی سوکھی کھا کر بھی اپنے رب کریم کا شکر ادا کرتے ہیں اورگھر والوں کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ ماں کے بھی فرمانبردار ہوتے ہیںچنانچہ اماں جہاں دل چاہے شادی کرا دیں، وہ خاموشی سے سر جھکا دیتے ہیں۔ شادی کے بعد بیوی کے سامنے بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ میں ، میں کرتے پوری زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنی پوری تنخواہ سمیت بیوی پر قربان ہو جاتے ہیں۔ اپنے حلقے میں یہ بیوقوف بکرے مانے جاتے ہیں۔ 
٭٭دیانتدار بکرے: ان کی نسل بڑی اعلیٰ اقدار کی حامل ہے مگر ہمارے ملک میں یہ بتدریج نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی نسل کشی کی وجہ ان کا موجودہ معاشرے میں "ان فٹ" ہونا ہے۔ ان ذہن میں ہر دم ، ہر قدم ایمانداری ، دیانت داری رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ اہم اداروں سے جلد فارغ کر دیئے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کالی بھیڑوں اورسفید ہاتھیوںکو بھرتی کر لیاجاتا ہے مگریہ بکرے اسی بات کی پروا نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں۔خواہ انہیں اپنی جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔
٭٭قلمی بکرے: ہمارے شوبز کے بکرے بکریاں غیر ملکی فلموں میں کام کرنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ ہدایتکار بکرا ، پروڈیوسر بکرے پر قربان ہونے کو ہر دم تیار رہتا ہے۔ ایک دوسرے پر قربان ہوتے ہوئے بالآخر ڈسٹری بیوٹر بکرا سینما ہال کے ذریعے ناظرین کی منتیں کرتا ہے کہ بھئی آ کر ہماری قربانی دیکھ لو۔ 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: