Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیڈیم بھرنے کیلئے پی سی بی وکٹوں پر توجہ دے

 لاہور:کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورلڈ الیون کے حالیہ دورے کا مقصد دنیائے کرکٹ میں پاکستان کی شناخت بہتر بنانا ہے تا کہ پاکستان کا کرکٹ کلچر پھر سے جی اٹھے لیکن مقصد فقط انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی نہیں ہونا چاہئے بلکہ شائقین کی دلچسپی کو بھی مد نظر رکھا جائے تاکہ کل کو جب انٹر نیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو جائے تو شائقین بھی گراونڈز میں لوٹ آئیں۔ سو جس طرح انٹرنیشنل کرکٹ کو واپس لانے کےلئے پاکستان اپنا سیکیورٹی امیج بہتر کر رہا ہے ایسے ہی پاکستان کو اپنی وکٹوں کا امیج بھی بہتر کرنا ہو گا۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں وکٹ فارمیٹ کے اعتبار سے بری نہیں تھی، پہلے میچ کی نسبت بہتر تھی اور وہ وکٹ اس وکٹ سے بدرجہا بہتر تھی جو پی ایس ایل فائنل کےلئے استعمال ہوئی تھی۔ کوشش یہ رہنی چاہئے کہ ان وکٹوں میں بہتری آتی جائے تا کہ کوئی مچل اسٹارک یا ڈیل ا سٹین یہ کہنے پہ مجبور نہ ہو کہ پاکستان کی وکٹیں بولنگ کے قبرستان ہیں۔ کرکٹ کا حسن فاسٹ بولنگ ہے اور بہتر وکٹوں پہ جب یہ حسن نکھر کر سامنے آتا ہے توا سٹیڈیم خود بخود بھرنے لگتے ہیں۔ 2006ءمیں ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو پہلا ٹیسٹ لاہور میںتھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پہلے دن صرف 2وکٹیں گریں۔یہ وہی میچ ہے جس میں یونس خان 199 رنز بنا کر رن آوٹ ہوئے تھے اور آفریدی نے ہربھجن کو ایک ہی اوور میں چار چھکے لگائے تھے۔جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو دو دن میں 700کے قریب رنز بن چکے تھے۔ جس پہ گریگ چیپل کو فیصل آباد کی وکٹ یاد آ گئی جس سے سر پٹخ پٹخ کر تھک جانے کے بعد ڈینس للی نے کہا تھا کہ یہ وکٹ بولنگ کا قبرستان ہے۔ للی نے اگرچہ یہ بات 1980 ءمیں فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم کی وکٹ کے بارے میںکہی تھی مگر پاکستان کی وکٹوں کا مزاج ایسا سرد مہر ہے کہ 26 سال بعد للی ہی کے کپتان چیپل کو کچھ ویسا ہی لاہور کی وکٹ کے بارے کہنا پڑا۔2006 تو پھر پرانی بات رہی، ابھی کوئی ڈیڑھ سال پہلے ڈومیسٹک ٹی 20 ایونٹ کا فائنل دیکھنے کا اتفاق ہوا تو فیصل آباد کی وکٹ کی چال سے اس کرب کا صحیح اندازہ ہوا جس سے کبھی للی گزرے ہوں گے مگر یہ قصہ صرف لاہور یا فیصل آباد تک ہی محدود نہیں، کراچی کے سوا پاکستان کی سبھی وکٹوں کا مزاج کچھ ایسا ہی ہے کہ دیکھ کر بلے بازوں کی رال ٹپکنے لگے اور فاسٹ بولر سر پیٹنے لگیں۔ رچرڈ ہیڈلی انہی وکٹوں کے مزاج کے ڈسے ہوئے تھے کہ اپنے کیرئیر میں صرف ایک ہی بار پاکستان کا دورہ کیا، دوسری بار آنے کی تاب نہ رہی۔ اس میں پاکستان کا قصور ہرگز نہیں کہ یہاں وکٹیں ہمیشہ ا سپن کےلئے ہی سازگار ہوتی ہیں۔ ہر خطے کی آب و ہوا الگ ہوتی ہے اور کون سی وکٹ کیسا رسپانس دے گی یہ کنڈیشنز طے کرتی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی وکٹیں بھی پاکستان ہی کی طرح سست روی کے ہاتھوں بدنام ہیںلیکن پاکستان کے خلاف گزشتہ ون ڈے سیریز میں ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے یہ فیصلہ کیا کہ وکٹ بنانے کےلئے گراونڈ کی مٹی کو استعمال نہ کیا جائے۔ اگر وکٹ جاندار ہو گی تو بیٹنگ اور بولنگ کے مقابلے کا توازن برقرار رہے گا۔

شیئر: