Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبات پر لاٹھی چارج

حیرت انگیز طورپر سنگھ پریوار اس معاملے کو شرپسندوں اور وطن دشمنوں کی حرکت قرار دے کر اصل موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے
* * * معصوم مرادآبادی* * *
وزیراعظم نریندرمودی کا حلقہ انتخاب بنارس آج کل سرخیوں میں ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کوئی غیر معمولی ترقیاتی کام ہورہے ہیں یا دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں بلکہ اس بار بنارس اپنی 100سالہ قدیم دانش گاہ بنارس ہندویونیورسٹی کی طالبات پر پولیس لاٹھی چارج کے حوالے سے سرخیاں بٹوررہا ہے۔ سب کو اس بات پر حیرت اور افسوس ہے کہ ایک یونیورسٹی کی طالبات کو پولیس نے بری طرح زدوکوب کیا اور ان پر لاٹھیاں برسائیں۔ ان طالبات کا قصور یہ تھا کہ وہ کیمپس میں چھیڑخانی اور جنسی ہراسانی کیخلاف احتجاج کررہی تھیں۔ 40 گھنٹوں سے مسلسل دھرنے پر بیٹھی ہوئی طالبات کی شکایات کا ازالہ کرنے کی بجائے یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر لاٹھیاں برسانا زیادہ مناسب سمجھا۔ کوئی ڈیڑھ ہزار پولیس والوں نے ان طالبات کو ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی کسی ظلم اور زیادتی کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کریں گی۔ یہ سب ایک ایسے وزیراعظم کے ناک کے نیچے ہوا ہے جن کا محبوب نعرہ ہے’ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ ۔ظاہر ہے جب بیٹیاں بچیں گی ہی نہیں تو وہ پڑھیں گی کیسے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ جمعہ کو جب یہ احتجاج شروع ہوا تو وزیراعظم ایک پروگرام کے سلسلے میں بنارس میں موجود تھے۔ یوں تو آج کل ہماری دانش گاہوں میں تعلیم کو فروغ دینے اور تحفظ کا ماحول فراہم کرنے کی بجائے وہاں ٹینک نصب کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ان دانش گاہوں کو مختلف وجوہ کی بنا پر سخت آزمائشوں میں مبتلا کیاجارہا ہے۔ اس سلسلے میں حیدرآباد کی سینٹرل یونیورسٹی اور نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں طلبہ کو طاقت کے بل پر زیر کرنے کی کوششیں ہوچکی ہیں اور اب تیسرا نمبر بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کا ہے جہاں کے طلبہ میں اس وقت زبردست بے چینی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے معاملے نے طالبات میں بڑھتے ہوئے خوف اور دہشت کے مسئلے کو پوری شدت کے ساتھ اجاگر کیا ہے لیکن حیرت انگیز طورپر سنگھ پریوار اس معاملے کو شرپسندوں اور وطن دشمنوں کی حرکت قرار دے کر اصل موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ بی ایچ یو کی طالبات پر لاٹھی چارج کے معاملے میں بنارس کے کمشنر نے جو رپورٹ حکومت کو سونپی ہے اس میں صاف طورپر یونیورسٹی انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔
کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی ایچ یو انتظامیہ نے متاثرہ طالبات کی شکایتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی وقت پر ان کا کوئی حل نکالا۔ اگر فوری طورپر اس معاملے کو حل کرلیاگیا ہوتا تو صورت حال بے قابو نہیں ہوتی اور معاملہ اتنا طول بھی نہیں پکڑتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر گریش چندر اس پورے معاملے کی لیپا پوتی کرنے میں لگے رہے۔ انہوں نے کیمپس میں لاٹھی چارج سے ہی انکار کیا۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر طالبات پر لاٹھی چارج نہیں ہوا تو درجنوں طالبات زخمی کیسے ہو گئیں اور وہ اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگنے پر کیوں مجبور ہوئیں۔ وائس چانسلر نے کیمپس میں افراتفری کے لئے وطن دشمن طاقتوں کو موردِ الزام قرار دیا ہے اور اس کا قصور وارباہر سے آنے والے شرپسند عناصر کو ٹھہرایا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بنارس ہندویونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کے ملک دشمن طاقتوں سے کیا رابطے ہیں اور یونیورسٹی کیمپس میں شرپسند عناصر کے داخل ہونے کی کیا صورت ہے لیکن بنارس ہندو یونیورسٹی کے اس واقعہ نے یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ نظم ونسق سنبھالنے کے قطعی اہل نہیں ۔ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں اور دیگر تہذیبی اور ثقافتی اداروں میں سنگھی نظریات رکھنے والے افراد کی تقرری کی گئی ہے اور جہاں جہاں سنگھ پریوار کے لوگ تعینات ہیں وہاں کارکردگی اور نظم ونسق نام کی کوئی چیز نہیں ۔ چوطرفہ مذمت کے بعد وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی کو جبراً چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ ترپاٹھی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے کہ وہ یونیورسٹی کو بھگوا رنگ میں رنگ رہے تھے لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت کا آشیرواد حاصل تھا اور وہ وشوہندو پریشد کے لیڈر آنجہانی اشوک سنگھل کے خاص سپہ سالاروں میں شامل رہ چکے ہیں۔
رخصت پذیر وائس چانسلر اپنے دفاع میں کہتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کو کسی آئیڈیا لوجی کے مطابق چلانے کی بجائے اسے بی ایچ یو ایکٹ کے مطابق چلارہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے پروگرام بلا روک ٹوک منعقد ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی میں پچھلے دنوں آر ایس ایس کے رضاکاروں نے ایک مارچ بھی نکالا تھا۔ سماجی کارکن ایکتا شیکھر کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اندریش کمار کو یونیورسٹی میں باقاعدہ لیکچر دینے کے لئے مدعو کیاگیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بی ایچ یو آر ایس ایس کی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے مرکزی حکومت کے فنڈ سے چلائی جانے والی ایک یونیورسٹی میں آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست تنظیم کی سرگرمیاں کسی بھی طورپر جائز قرار نہیں دی جاسکتیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد 1916میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے ڈالی تھی جو ہندومہا سبھا کے سرکردہ لیڈر تھے۔ یہ یونیورسٹی ہمیشہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کے چنگل میں رہی ہے اور یہاں دلتوں ، پسماندہ طبقات اور خواتین کو ہمیشہ حاشیے پر رکھا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے پچھلے دنوں طلاق ثلاثہ کے معاملے میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے اور ان کے خلاف ہونے والے ظلم کا ازالہ کریں گے لیکن ہم وزیراعظم سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ خود ان کے حلقہ انتخاب بنارس میں ہندو یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی پولیس نے جو شرمناک سلوک کیا ہے، آخر انہوں نے اسے ٹھنڈے پیٹوں کیوں برداشت کرلیا۔ جب وہ خود اپنے سماج کی خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو کس منہ سے مسلم خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کاش وزیراعظم طلاق شدہ مسلم خواتین کی حالت زار پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بجائے خود اپنے گھر کی خبر لیتے۔ اگر ایک سینٹرل یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کو جنسی مظالم اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی آزادی نہیں تو پھر کس منہ سے مسلم خواتین کے نام نہاد استحصال کا رونا رویا جاتا ہے۔

شیئر: