اس نے بچوں کے” سائبان“ کی خاطر فیصلہ بدل دیا
زینت شکیل۔جدہ
وہ چونک گئی تھی۔ ان دونوں کی یاسیت بھری نگاہیں اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور کر رہی تھیں۔وہ غصے کی حالت میں بیگ پیک کر چکی تھی۔ اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو کر رہ گئی تھی۔وہ طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے ہم جماعتوں میں بہت مقبول تھی ۔وہ ایک ہمدرد لڑکی تھی۔ اسکی صلح جوئی اوردوسروں کے ساتھ صلہ رحمی کی عادت سب کو بہت بھاتی تھی۔ وہ والی بال کی بہترین کھلاڑی مانی جاتی تھی۔ اس نے بی بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بوتیک کھولنے کا ارادہ کیا تو اجازت نامے کے بعد دستاویزات مکمل کرانے میں کئی ہم جماعتوں نے اسکے کام میں دلچسپی لی اور اپنی ہفت روزہ خدمات کی پیشکش بھی کی جو اس نے شکریے کے ساتھ قبول بھی کر لی کیونکہ اتنا بڑا پراجیکٹ انفرادی طور پرمکمل کرنا ممکن نہیں تھا ۔اسکے لئے اجتماعی کوشش ہی بارآور ہو سکتی تھی ۔
اس نے اپنے بوتیک میں کام کرنے والوں پر پابندی لگائی تھی کہ تمام ورکرز کم ازکم 12ویں جماعت ضرور پاس کریں۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بوتیک کا ہر کارکن کسی نا کسی درجے کا طالب علم تھا ۔
آج اس کی شادی کو 10سال ہو گئے تھے ۔اس دوران کتنی ہی جانب سے اسے اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ اسکا شوہر فلاں شہر میں فلاں ماڈل کے ساتھ دیکھا گیا لیکن وہ ایسی کسی بات کو نہیں مانتی تھی بلکہ وہ ایسی کوئی بھی بات سن کر اس کی تردید کرتی تھی۔ اس کا انداز بہت جارحانہ ہوتا تھا۔ اس کے خیال میں اسکے گھر میں ہرطرح کی راحت وسکون میسر تھا ۔ وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ خوش شکل اور صوم و صلات کی پابند تھی۔ وہ خود اپنے گھر کی ڈرائیور، مالی، کک، انٹیریئر ڈیزائنر حتیٰ کہ اپنے بوتیک کے ہر کارکن کے خاندان کی بہتری کے لئے بورڈآف ڈائریکٹرز کی میٹنگ بھی وہی ترتیب دیتی تھی جس کا مقصد کارکنان کی بھلائی کےاقدامات کرنا ہوتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی ملازم یا ملازمہ نہیں تھی وہ اپنے گھر کاہر کام بخوبی انجام دیا کرتی تھی۔وہ احکامات پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی تھی اور دوسروں کے لئے بھی ایسا ہی سوچتی تھی۔
آج عجیب واقعہ رونماہوا۔ اس کی سہیلی بیرون ملک سے کئی سال بعد آئی تو اسے بھی فون کیا۔ دونوں کو جلد سے جلد ملنے کی خواہش ہوئی۔ آج کا دن طے ہوا۔ وہ مہمان داری کے سلسلے میں کچھ ضروری چیزیں لینے وہاں گئی تھی کہ اس کی نگاہ شیشے سے سڑک کے پار ریسٹورنٹ میں بیٹھے اپنے شوہر پر پڑی ۔ وہ خود فون کرنایا روڈ کراس کر کے وہاں پہنچنا چاہتی تھی کہ اسکے شوہر کی کال آگئی۔اس نے سیل فون پر شوہر کا نمبر اور تصویر جگمگاتے دیکھی توخوشی سے آن کال آن کی اور وہ ابھی اس مسحور کن اتفاق کے بارے میں شوہر کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ سامنے والے مال کی انٹرنس میں موجودہے لیکن اچانک وہ منجمد ھو کر رہ گئی کیونکہ اسکا شوہر اسے اپنی شام کی فلائٹ کی اطلاع دے رہا تھا۔ وہ اسکے قریب بیٹھی اس ماڈل کو بخو بی پہچان رہی تھی جس کے متعلق باتیں اور اسی طرح کی دوسری خبریں اس کے کان میں اڑتی اڑتی پہنچتی رہتی تھیں مگر وہ ان پر کبھی یقین نہیں کرتی تھی۔
وہ ہر ماہ 2ہفتے کے لئے بیرون ملک یا ملک کے مختلف علاقوں کا اپنی کمپنی کی جانب سے دورہ کیا کرتا تھااور اکثر اس بات پر ناراضی کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا کہ آفس والوں کو کوئی دوسرانہیں ملتا کہ ہر مرتبہ میرا ہی نام دے دےتے ہیںکہ میں چونکہ وزٹ کرتا رہتا ہوں اس لئے سب سے اچھی علیک سلیک ھو گئی ہے ۔
وہ غصے کی شدت میں کیسے ڈرائیو کر پائی۔ اس سے وہ اس بات کا اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کی شخصیت ہے۔ اس نے جس بات کو ہمیشہ لوگوں کی جانب سے بولا جانے وا لا جھوٹ سمجھا تھا ،آج سچ ثابت ہو چکا تھا۔ اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ تمام ضروری سامان بیگ میں پیک کیا۔اس کی سہیلی کے آنے کا وقت جو دونوں کے درمیان طے ہوا تھا، اسی وقت گھر کی گھنٹی نے اسے یاد دلایا کہ دراصل وہ کیوںمال گئی تھی۔
وہ اتنے عرصے بعد ملی تھیں لیکن دونوں ہی اپنی اپنی الجھنوں میں مقید تھیں۔اس کی سہیلی کے دونوں بچے اسکے بچوں کے ہم عمر تھے۔ چاروں خوب گھل مل گئے ۔وہ اپنے بتائے ہوے وقت پر آپہنچا ۔ اس پر نظر پڑتے ہی اسکا دوران خون اچانک اپنی آخری حدوں تک چلا گیا۔وہ ایک لفظ تک کہنے کے قابل نہیں رہی کہ اپنی سہیلی کا تعارف ہی کرادیتی۔ دونوں بچے اپنا پسندیدہ کھیل چھوڑ کر اسکی طرف دوڑے۔ وہ اپنے 8 سالہ بیٹے کو ساتھ لگا ئے، 5سالہ بیٹی کو گود اٹھائے، پورچ سے گزرتے ہوئے لان کے آخری سرے پر موجوداندرونی دروازے میں داخل ہو گیا۔دونوں بیٹا اور بیٹی بڑے شدومد سے ایک دوسرے کی شکایت کر رہے تھے۔
اسکی سہیلی نے کہا کہ تم نے کتنی سمجھداری کا ثبوت دیا۔ کتنے لوگوں نے تم سے تمہارے شوہر کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا لیکن تم نے ہمیشہ پوری قوت سے ایسی باتیں کر نے والوں کو وارننگ دی کہ تم کسی صورت یہ باتیں نہیں مانو گی کیونکہ تم لوگ ایک خوشگوار زندگی گزار رہے ہو۔ بھلا کون سا احساس کمتری ہے کہ انسان گھر کا پاکیزہ ماحول نظر انداز کر کے ڈسٹ بن کے اردگردجانا چاہے گا۔یہ سب باتیں کئی لوگوں کی زبانی مجھ تک بھی پہنچی تھیں اور میں نے اس وقت سوچا تھاکہ تمہیںایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے مگر آج مجھے اس بات کا جواب مل گیا۔جو کام میں نے برداشت نہیں کیا،میرے شوہر کے ساتھ سیکریٹری کی حد سے بڑھی ہوئی دوستی نے مجھے ایک بڑا فیصلہ لینے پر مجبور کر دیاتھا۔ میرے اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان میر ے بچوں کو ہواہے۔ اب مجھے وہ باتیں یاد آتی ہیں کہ بوڑھی، پرانی،ان پڑھ عورتیں اپنی ذات پر ظلم برداشت کر لیتی تھیں لیکن اپنے بچوں کی شخصیت بکھرنے نہیںدیتی تھیں۔
وہ چونک گئی۔ اسکے بچوں کے ہم عمر اس کی سہیلی کے بچوں کے چہروں پر کتنی سنجیدگی تھی ۔ اسکے دونوں بچوں کواپنے والد سے لاڈ کرتے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں کیسی یاسیت اُمڈ آئی تھی۔اس نے اپنا فیصلہ اپنے بچوں کے سائبان کی خاطر بدل دیا۔
جاننا چاہئے کہ جو لوگ بہترین نعمت ٹھکرا کر ادھر ادھر بھٹکتے ہیں، وہ ساری زندگی ناآسودہ رہتے ہیں۔