Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر اولین درس گا ہ ، تہذ یبی حسن ہو تو نسلیں سنور جائیں

 
آزادی نسواں کے نام پر اقدار کو ازکاررفتہ کہہ کر خیر باد کہنے کی ٹھان لی گئی
تسنیم امجد۔ریاض
آزادی نسواں کے نام پر آج اپنی اقدار کو ازکاررفتہ قرار دے کر خیر باد کہنے کی ٹھان لی گئی ہے ۔رشتو ں کی نا قدری عام ہو چکی ہے۔بزرگوں کا کہا نہ ماننے کی گویا قسم کھا لی گئی ہے ۔اس معاشرتی بگاڑ کو محسوس کرنے والے اپنے تئیں سدھار کی کو ششو ں میں لگے ہیں۔یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قلم کی کاٹ تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے ۔ہماری اخلاقی اقدار بے بسی سے ہمارے اطوار کا شکوہ کرتی ہیں۔
دادی کا گھر میں رہنا رابعہ کوبہت کھلتا تھا ۔وہ اکثراپنے بابا سے کہتی تھی کہ ان سے کہیں ،میرے معا ملات میں د خل نہ دیا کریں۔ان کو تو ایک ہی رٹ ہے کہ کچن کا کام سیکھو اور شوق سے کرو ۔وقت ہاتھو ں سے ریت کی مانند پھسلتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سسرال سدھار گئی۔بڑی بہو ہونے کا اعزاز ملا جس پر وہ خوب اتراتی پھر تی تھی ۔بھرا پرا گھر تھا ۔ساس نے چند دن تو چو نچلے اٹھائے پھر ایک دن بلا کر چابیو ں کا گچھا تھماتے ہوئے کہا کہ بیٹی اب تم کچن سنبھا لو ۔نو کر چاکر ہیں لیکن ان سے کام تمہی نے لینا ہے ۔روزانہ کی ہا نڈی ،شام کی چائے اور فروٹ سب ضرو رتو ں کا خیال رکھنا ۔وہ کبھی چا بیا ں دیکھتی اور کبھی اپنی ذمہ داریو ں کا دا ئرہ ۔اس نے ڈرتے ڈرتے ”جی امی“ کہا۔ اس کی آواز گلے میں پھنس رہی تھی۔ایک آدھ دن تو وہ ما ں سے پو چھ پا چھ کر کا م چلاتی رہی لیکن تیسرے دن اسے چا بیا ں نہیں مل رہیں تھیں۔کسی کو بتا بھی نہیں رہی تھی۔آخر خبر ملی کہ گھر کا پرانا ملازم کمر ے میں نہیں۔ڈرائیور نے کہا کہ وہ صبح یہ کہہ کر گیا ہے کہ وہ گا ﺅ ں جارہا ہے، ایمر جنسی ہو گئی ہے ۔ساس سسر سر پکڑے بیٹھے تھے اور پچھتا رہے تھے کہ بہو کو ذمہ داری کیو ں سو نپی ۔ساس کا کہنا تھا کہ ہماری یہی روایت ہے ۔مجھے بھی اسی طرح ذمہ داریا ںسو نپی گئی تھیں۔را بعہ کی ماں نا را ض ہو نے لگیں کہ میری اتنی سی بچی کو اتنی بڑی بڑی ذمہ داریاں کیو ں سو نپیں؟
ما ضی میں ماں ،بیٹی کا تعلق بھی آج سے مختلف تھا ۔آج یہ ناتہ مام اور یار ،کی زبان سے بے تکلفی کا اظہار تو کر رہا ہے لیکن احترام کی حدود پا ر کر گیا ہے ۔شاید ما ڈرن ثابت کرنے کی یہ بھی ایک ادا ہے ۔کا ش ہم اغیار کی تقلید میں اپنی روایات کا گلا نہ گھو نٹیں۔ادھر ادھر بھٹکنا
بد قسمتی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اولاد کو محبت سے اپنی دعا ﺅ ں کے سائے میں رکھیں اور اپنی حیثیت کو نہ کھو نے دیں ۔
آج اکثر سننے کو ملتا ہے کہ دادی نے بگاڑ دیا۔دادا باہر لے جاتے ہیں اور اوٹ پٹا نگ کیا کچھ کھلالاتے ہیں، اسی لئے گلا خراب ہو جاتا ہے جبکہ اپنی کو تا ہیا ں نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔والدین ،ساس ،سسر ،ان رشتوں کے وجود کو بو جھ جا نتے ہوئے حتی ا لا مکان نظر انداز کرنے کی کو شش کی جاتی ہے ۔یہی رشتے دادا ،دادی اور نا نا ،نانی کی حیثیت میں بھی کھلتے ہیں جبکہ خا ندا نو ں کو جو ڑ نے اور بنا نے میںان کی خد مات کو فرا موش نہیںکیا جا سکتا ۔انہی کے وجود سے اقدار کی نسل در نسل منتقلی ممکن ہے جو کسی بھی معا شرے کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔
آ ج کے والدین اولاد کی زندگی سے دور ہو چکے ہیں۔ وہ اولاد کو ان کی ضروریات سو نپ کر پلٹ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ بقول ان کے، وقت ہی نہیں ہے ۔ہماری روایات کے مطا بق خا نگی زندگی ایک سلیقہ ہے،ایک طور طریقہ ہے۔ایک انداز ہے ۔معیار ہے ،شعار ہے ۔اس کی زیادہ تر ذمہ داری خا تو نِ خانہ پر ہے ۔گھر اولین درس گا ہ ہے جس میں تہذ یبی حسن آ جائے تو نسلیں سنور جاتی ہیں۔اپنی اقدار کی کماحقہ¾ پا سداری کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ آج کے دور میں بھی کچھ خاندان ان اقدارکا بھرم رکھتے ہیں۔
حال ہی میں ایک گیٹ ٹو گیدر کے دوران ایک خاتون کہنے لگیںکہ ان کی بیٹی ایک مقامی انٹر نیشنل اسکول میں زیرِ تعلیم ہے ۔وہ اصرار کے با و جود تقریب میں شرکت کے لئے نہیں آئی کیو نکہ یہا ں معا شرتی درجہ بندی ہے۔آپ دیکھ رہی ہیں کہ یہا ں کی لڑ کیو ں پر انگریزی کی چھاپ کس قدرگہری ہے۔انگریزی بو لنے والی لڑ کیاں خود کو نما یا ں کرنے کی کو شش میں رہتی ہیں ۔یہ دوسروں کو حقیر جا نتی ہیں۔ اکثر ما ئیں بھی فخریہ انداز میں کہتی ہیں کہ ہمارے بچو ں کو انگریزی ہی آتی ہے،اردو انہیں مشکل لگتی ہے ۔ایک خاتون بولیں کہ میری بیٹی تو سسرال میں رہنا ہی نہیں چاہتی کیو نکہ وہاں نہ ساس انگریزی جانتی ہیں اور نہ ہی نندیں۔میری بیٹی ان کو کچھ سمجھا ہی نہیں پاتی ۔شو ہر سے شکایت کرتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم کوشش کرو کہ اردو روانی سے سیکھ لو ۔اپنی زبان ہی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ وہ بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا ۔اب سوچ رہی ہو ں کہ کو ئی ٹیچر رکھ لوں۔ان اردو دانوں میں بیٹی بیاہ دی تو اب بھگتنا تو پڑے گا ۔
ایسی سوچ کے لوگ قومی فکر سے نا آشنا ہیں۔مانگے تا نگے کی قدروں پر فخر در حقیقت احساسِ کمتری کی علامت ہے ۔اپنی زبان پر
فخر تو خود اپنی پہچان ہے ۔دوسری زبانوں اور علوم کا سیکھنا کو ئی عیب نہیں لیکن اپنی زبان کو کمتر سمجھنا عیب ہے ۔زندگی کا ایک انداز برتاﺅ ہے اگر آپ کو برتاو آ گیا تو ذہنی سکون و کا میابیاں آپ کا مقدر ہو ں گی۔ذاتی محاسبے کے لئے عمر اور وقت کی قید نہیں۔ہر انسان منفی اور مثبت مزاج کی نمو کرتا ہے اس لئے کوشش یہ ہو نی چاہئے کہ ایسے لو گو ں سے رابطہ رکھا جائے جو سلجھے ہوئے مزاج کے حامل ہو ں۔خاص کر اولاد کے دوستوں و سہیلیو ں پر نظر رکھیں ۔والدہ کا کہنا ہے کہ سب کو سب پتہ ہے لیکن اپنی قبا حتو ں کا پتہ نہیں۔روایتی زندگی دور،غیر روایتی قباحتوں میں الجھا آج کا معاشرہ حقائق کو جا نتے بو جھتے نظر انداز کرتا ہے ۔شاعر نے ان حالات کے لئے ہی کیا خوب کہا ہے کہ:
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا ،نہ روش وہ ابرِ بہار کی 
جس ادا سے یار تھے آشنا ،وہ مزاجِ بادِ صبا گیا 
احساسِ بر تری سے اپنی کمتری کے ردِ عمل میںکچھ لوگ یہ کو شش کرتے ہیںکہ وہ اپنی اس کمتری کو کم کرنے کے لئے دوسروں سے بر تر ہوجائیں۔یہیں سے بگاڑ کی شروعات ہو تی ہے ۔یہ رویہ خواتین میں زیادہ دیکھا جاتا ہے ۔
عقیقے کی دعوت میں ایک خاتون دوسری کو بتا رہی تھیں کہ فلا ں عو رت کو ذرا دیکھنا اس نے وہی جو ڑا پہنا ہوا ہے جو پچھلے مہینے فلا ںکی شادی پر پہنا تھا ۔اس کی سطح ملا حظہ ہو کہ اس نے شادی میں شامل ہونے والی تمام عو رتوں کے لباس اور زیور اپنے کمپیو ٹر میں درج کر رکھے تھے۔ایک متوسط گھرانے کی خاتون کے بھتیجے کی شادی تھی،اس نے شادی اور ولیمے کے اپنے اور اپنی بیٹیو ں کے جوڑے بنوائے اور طلائی چو ڑیاں بھی خریدیں۔اس طرح جو رقم زمین خریدنے کے لئے رکھی تھی، ان ملبوسات و زیورات میں لگا دی تاکہ خود نمائی میں کو ئی کسر نہ رہے۔اس مسا بقتی دوڑ سے پر ہیز ضروری ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: