Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصحاب مصطفیٰﷺ کی شان ، ایک آیت کی روشنی میں

انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے دل اور روح سے ایسا عشق نہیں کیا جیسا کہ صحابہ ؓ نے اللہ کے رسول سے کیا ہے
* * * *عبدالمنان معاویہ۔ مکہ مکرمہ* * *
قرآن حکیم بنی نوع انسان کیلئے ہدایت نامہ اور انسانیت کیلئے رہنمائی ہے۔ قرآن حکیم میں انبیائے سابقین کا تذکرہ اسی لئے موجود ہے کہ آج کی انسانیت ان واقعات سے سبق حاصل کرے۔ اصحاب مصطفی کی شان ومنزلت بھی قرآن حکیم نے اسی لئے بیان کی تاکہ مسلمان یہ جان لیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب محمد رسول اللہ کی کامل اطاعت کرے گا اس کو حق جل مجدہ دنیا وآخرت میں مقام رفیعہ سے نوازے گا ۔صحابہ کرام ؓ نے دل وجان سے آقائے نامدار کی فرمانبرداری کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدس میں ان کا تذکرہ کرکے رہتی دنیا تک کے لوگوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری کردیا ۔ آئیے قرآن حکیم کی ایک آیت ملاحظہ کریں جس میں حق تعالیٰ حضرات صحابہ کرام ؓ کی شان بیان فرماتا ہے: ’’محمد () اللہ کے رسول () ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں، تم جب دیکھو گے انہیں رکوع وسجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤگے، سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں، یہ ہے ان کی صفت تورا ت میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی،پھر اس کو تقویت دی پھروہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں، اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ (الفتح29)۔
اس آیت کی تفسیر سے قبل آیتِ ہذا سے چند مندجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
٭ جو لوگ آنحضرت کے ساتھ ہیں ،ان خوش نصیب ہستیوں کو ہم صحابہ کرام ؓ کہتے ہیں۔
٭ وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں یعنی بہادر ہیں،ظاہر سی بات ہے کہ کافروں کے مقابلے میں سخت ایمان والے ہی ہونگے، کمزور ایمان والے لوگ کفار کے مقابلہ میں سخت نہیں ہوسکتے تو پتہ چلا کہ حضرات صحابہ کرام ؓ ایمان کے اونچے مقام پر فائز تھے ۔
٭ وہ آپس میں رحمدل تھے یعنی ان میں باہمی محبت ،اخوت تھی، ایک دوسرے پر مہربان اور جان نثار کرنے والے تھے ۔
٭ حضور نبی کریم کے ساتھی ہر وقت رکوع وسجود کررہے ہیں یعنی ہر لمحہ تسبیحات میں ان کی زبان مصروف ر ہتی تھی اور حضور کے مبارک طریقوں پر ان کی زندگیاں بسر ہوتی تھیں ۔
٭ رکوع وسجود سے ان کا مقصد رضائے الٰہی تھانہ کہ ریا کیونکہ ان کا ظاہر وباطن ایک تھا۔یہی مومن کی نشانی ہے کہ اس کا ظاہر وباطن ایک ہو ۔
٭ کثرتِ سجود اور کثرت مشقت کے آثار ان کے چہروں سے عیاں تھے یعنی چہروں پر نورانیت ۔
٭ ان کے اوصاف جمیلہ کا تذکرہ حق تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں بھی کیا ،یعنی بشارت محمدی ؐ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کی بشارات بھی کتبِ سابقہ میں موجودتھیں ۔
٭ انجیل میں ان کی مثال ایک کھیتی سے دی یعنی جب فصل تیار ہوتی ہے اور خوب پھلی پھولی ہو تو زمیندار بڑا خوش ہوتا ہے جس نے کئی ماہ اس کی تیاری میں صرف کئے، اب اس کی محنت پھل لے آئی لیکن زمیندار کا دشمن اس لہراتی اور ہری بھری کھیتی کو دیکھ کر جل جاتا ہے تو صحابہ کرام ؓ ، رسول اللہ کی کھیتی ہیں، اب جو صحابہ کرام ؓ سے جلتا ہے وہ درحقیقت محمد عربی سے جلتا ہے ۔
٭ آگے ایمان واعمالِ صالحہ کی شہادت سمیت صحابہ کرام ؓ کیلئے بشارت ہے جنت کی ،مغفرت کی اور اجر عظیم کی اور یہ سب چیزیں ابدی ہیں ۔
٭ایک بار پھر توجہ فرمائیے کہ جملہ کی ابتدا ء میں حضرات صحابہ کرام ؓ کا معیت ِنبوی ؐ کے شرف سے مشرف ہونا بتلادیا کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ کے ساتھ ہیں ،سب فضیلتیں اپنی جگہ لیکن معیتِ نبوی ؐ سے بڑی فضیلت ایک مومن کیلئے کوئی نہیں ہوسکتی ۔ ان10 امور کے بعد اب اس آیت کریمہ کی تفسیر معتبر علمائے کرام سے پیش کرتے ہیں ۔ مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی ؒتحریر فرماتے ہیں: یہاں سے آپکے صحابہ کرام ؓ کے فضائل کا بیان ہے۔ اگرچہ اس کے پہلے مخاطب حضرات صحابہ ؓ ہیں جو حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے لیکن الفاظ کے عموم میں سبھی صحابہ کرام ؓ شامل ہیں کیونکہ صحبت ومعیت سب کو حاصل ہے ۔اس مقام پر حق تعالیٰ نے آنحضرت کی رسالت اور آپکے دین کو سب دینوں پر غالب کرنے کا بیان فرماکر صحابۂ کرام ؓ کے اوصاف وفضائل اور خاص علامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے۔ اس میں ان کے سخت امتحان کا انعام بھی ہے جو صلح حدیبیہ کے وقت لیا گیا تھا کہ ان کے قلبی یقین اور قلبی جذبات کے خلاف صلح ہوکر بغیر دخول مکہ وغیرہ کے ناکام واپسی کے باوجود ان کے قدم متزلزل نہیں ہوئے اور بے نظیر اطاعت رسول اور قوت ایمانی کا ثبوت دیا ،نیز صحابہ کرام ؓ کے فضائل اور علامات کی تفصیل بیان فرمانے میں یہ حکمت بھی ہوتو بعید نہیں کہ آنحضرت کے بعد کوئی اور نبی ورسول ہونے والا نہیں تھا ۔ آپنے اپنے بعد امت کیلئے کتاب اللہ کے ساتھ اپنے اصحاب ہی بطور نمونہ کے چھوڑا ہے اور انکی اقتداء واتباع کے احکام دئیے ہیں (معارف القرآن)۔
امام ابن کثیر ؒ تحریر فرما ہیں: صحابہ کرام ؓ کی نیتیں خالص تھیں، اعمال اچھے تھے، پس جس کی نگاہ ان کے چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا ۔ حضرت امام مالک ؒ کا فرمان ہے کہ جن صحابہ ؓ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ اللہ کی قسم یہ (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں سے بہت بہتر وافضل ہیں۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچاہے، اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت وعظمت موجودہے (تفسیر ابن کثیر)۔ امام ابن اسحاق اور ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباسؓ سے یہ قول بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے خیبر کے یہودیوں کی طرف لکھا ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ،یہ تحریر محمدرسول اللہ( ) کی جانب سے جو کہ موسیٰ( علیہ السلام )کے اور ان کے بھائی کے صاحب ہیں جنہوں نے اس (دین) کی تصدیق کی جو( حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے، خبردار سنو! اے تورا ت کوماننے والی جماعت ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں فرمایا ہے اورتم اپنی کتاب میں یہ پاتے ہو : محمد رسول اللہ والّذین معہ اشدآئُ علی الکفار رحمآبینھم (تفسیر درمنثور)۔ مولاناقاسم نانوتویؒ نے اس آیت کے ضمن میں جو لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیے : ’’ اول رسول اللہ کا ذکرفرمایا پھر صحابہ ؓ کا۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قائدِ اول رسول اللہ کا اس امت میں اول نمبر ہے اور صحابہؓ کا دوم تو ہم بالیقین سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ اول قسم کے مخلصین میں تھے کہ شیطان بھی ان کے اغواء پر کانوں پر ہاتھ دھرتا تھا بلکہ بایں نفر کہ شیطان راس ورئیس کفار ہے اور صحابہ اشدآء علیٰ الکفار ہیں تو پھر شیطان پر اور بھی اشد ہونگے ،علیٰ ہذا القیاس نفس اعدائے دین سے بلکہ سب میں بڑھ کر ہے اور شیطان بھی اسی کے سہارے اپنا کام کرے ہے، وہ اگر نہ مانے تو شیطان کیاکرے ۔
بہر حال نفس وشیطان سے ان کی عداوت اور بھی زیادہ ہوگی اور ان دونوں پر وہ اور بھی اشدہونگے کیونکہ بغض فی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے عداوت بقدر دشمنی ہوتی ہے، جتنی دشمنوں کی دشمنی زیادہ اتنا بغض فی اللہ زیادہ ،سو مخلصین پر شیطان کا فقط بس نہ چلتا تھا مگر اندیشہ بھی نہ تھا صحابہ ؓ سے اس کی کور بھی دیتی تھی ،عجب نہیں ان سے بھاگتا پھرتا ہو ،سو یہی وجہ ہوگی کہ حضرت عمر ؓ کے سایہ سے بھی شیطان بھاگتا تھا کیونکہ وہ سب صحابہ کرام ؓمیں کافروں کے باب میں زہرِ قاتل تھے۔ ان کے حق میں اشدآء علیٰ الکفار ہونا سب سے زیادہ صادق آتا تھا (ہدیۃالشیعہ)۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’ یہ آیت چند اہم ترین فوائد پر مشتمل ہے ۔
اول :آیت شریفہ میں کلمہ ’’محمدرسول اللہ‘‘ ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں ’’والذین معہ ‘‘ کو بطور دلیل ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرات صحابہ کرام ؓ کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کی رسالت ونبوت کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے اور ان گواہوں کی تعدیل وتوثیق فرما ئی ہے، پس جو شخص ان حضرات پر جرح کرتا ہے وہ نہ صرف آنحضرت کی رسالت پر جرح کرتا ہے بلکہ قرآن کریم کے دعویٰ کی تکذیب کرتا ہے ۔
دوم:حضرات صحابہ کرام ؓ کو ’’والذین معہ‘‘ کے عنوان سے ذکر فرماکر ان کیلئے آنحضرت کی رفاقت ومعیت کو ثابت فرمایا گیا، چونکہ آنحضرت کا صراط مستقیم پر ہونا قطعی ویقینی ہے اسلئے جن اکابر کیلئے آنحضرت کی رفاقت ومعیت بہ نصِ قرآن حاصل ہے، ا ن کا صراط مستقیم پر ہونا بھی قطعی ویقینی اور ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ،زہے سعادت کہ حضرات شخین ؓ کو دنیا میں بھی رفاقت نبویؐ میسر رہی ،روضہ مطہر میں بھی قیامت تک شرف رفاقت حاصل ہے اور دخول ِجنت کے بعد بھی اس دولت کبریٰ سے دائماً ابداً سرفراز رہیں گے ۔
سوم :حق تعالیٰ شانہ نے صحابہ کرام ؓ کیلئے ’’والذین معہ ‘‘کے عنوان سے جو منقبت وفضیلت ثابت فرمائی تھی اس کے علاوہ ان کی کوئی اور فضیلت ذکر نہ کی جاتی تب بھی یہی ایک دولت دنیا وآخرت کی تمام دولتوں سے بڑھ کر تھی چہ جائیکہ اسی پر اکتفا نہیں فرمایا گیا بلکہ ان کی صفات کمالیہ کو بطور مدح بیان فرمایا ’’ اشدآء علیٰ الکفاررحمآبینھم ‘‘ جس میں ان کے تمام علمی عملی ،اخلاقی ونفسیاتی کمالات کا احاطہ کرلیا گیا۔پس یہ اکابر ممدوحِ خداوندی ہیں اور وحیٔ الٰہی ان کے کمالات سے رطب اللسان ہے اس کے بعد اگر کوئی شخص ان اکابر کے نقائص ومطاعن تلاش کرتا ہے تو یوں کہنا چاہئے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے ۔
چہارم: یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان اکابر کی مدح وستائش صرف قرآن کریم ہی میں نہیں بلکہ سابقہ تورات وانجیل میں بھی ان کی اعلیٰ وارفع شان بیان فرمائی گئی ہے ۔گویاان جانثاران محمد کے نام کا ڈنکا دنیا میں ہمیشہ بجتا رہا ہے۔
سب انبیائے سابقین علیہم السلام ان کے کمالات سے آگاہ ومعترف رہتے ہیںاور امم سابقہ بھی ان کے اوصافِ مدح وکمال کا تذکرہ کر کے اپنے ایمان کو تازہ کرتی رہی ہیں۔
پنجم:یہ بھی بیان فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ کی نبوت کے گواہوں اور آپ کے جانثاروں سے اگر کسی کو غیظ اور جلاپا ہوسکتا ہے تو صرف کافروں کواور اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ کے صحابہ کرام ؓ کو اسی مقصد کیلئے ایسا باکمال بنایا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے کافروں اور بے ایمانوں کو غیظ وبغض کی آگ میں ہمیشہ جلاتا رہے۔ ’’ لیغیظ بھم الکفار ‘‘ گویا قرآن نے حضرات صحابہ کرام ؓ کی مدح وستائش پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان اکابر سے کینہ وبغض رکھنے والوں کے حق میں کفر کا فتویٰ بھی صادر فرمادیا کیونکہ جس شخص کے دل میں حضرت محمد رسول اللہ کی ذرا بھی محبت ہو اور جو شخص ادنیٰ سے ادنیٰ ذرہ ایمان سے بہرہ ور ہو ،اس سے یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت محمد کے ان جانثاروں سے بغض وکینہ رکھے ،جن کی مدح وستائش اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے ،جن کی عظمت وشان انبیائے گزشتہ تک نے بیان فرمائی ہے اور جو اممِ سابقہ کے بھی ممدوح ومحبوب رہے ۔
ششم : آخر میں ان حضرات کے ایمان وعملِ صالح کی بنا پر ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔یہ ان اکابر کے حسن ِحال کے ساتھ حسن ِ مآل کا ،آغاز کے ساتھ انجام کا ،ان کی ’’ العاجلہ ‘ ‘کے ساتھ ’’ الآخرۃ ‘‘ کا اور ان پر عنایاتِ ربانی کے خلاصہ کا ذکر فرمایا ہے (بولتے حقائق) ۔ آ یت قرآنیہ کی مندرجہ بالا تفسیر سے حضرات اصحاب مصطفیٰ کی شانِ رفعیہ اور مقام ومنزلت خوب عیاں ہے۔ ہم اس مضمون کو مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی تحریر پر ختم کرتے ہیں،آپ ؒ لکھتے ہیں: ’’ محبت ِایمان کی اس آزمائش میں صحابہ کرام ؓ جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور وہ محتاجِ بیان نہیں۔
بلاشائبہ ومبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا کہ صحابہ ؓ نے اللہ کے رسول سے راہ حق میں کیا ہے۔ انہوں نے محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے(ترجمان القرآن)۔ اللہ رب العالمین جملہ اہلیانِ اسلام کو حضرات صحابہ کرام ؓ کی محبت اور کامل اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جسے صحابہ کرام ؓ کی مقدس جماعت نے دین نہ ہونے کی بناپر ترک کیا ہو،آمین ۔

شیئر: