Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ جمال، وہ کمال، یہ حقیقت، وہ مثال

شہزاداعظم۔جدہ
بعض باتیں محض کہی جاتی ہیں ،سمجھی نہیں جاتیں جبکہ بعض باتیں صرف سمجھی جاتی ہیں، کہی نہیں جاتیں مگر وہ ہر کہنے والی بات کو سمجھا تی تھی اور ہر سمجھنے والی بات کہا کرتی تھی۔ نکاح کے بعد وہ میرے ساتھ پارک میں گئی، وہاں زمین میں دھنسے” پتھریلے صوفے“ پرمجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور پھر خود بھی پاس بیٹھ گئی ۔میں اسے مسکراتا، چہچہاتادیکھ کر خوش ہو رہا تھا عجیب منظر تھا ،اس زمیں پر سیا ہ عبائے کے حصار سے جھانکتا اس کا چہرہ اوراُس سیاہ آسمان پر دمکتا ماہِ کامل،ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دونوں ہی اپنی ضد پر قائم ہیں،یہ جمال تو وہ کمال، یہ حقیقت تو وہ مثال،میری آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں اور وہ چاند کو آنکھیں دکھا رہی تھی۔ وہ فاتحانہ انداز میں مسکرائی اور کہنے لگی”ذرا تصور کیجئے،ایک لڑکی،کھلے آسمان تلے ایک لڑکے سے اپنے دل کی باتیں کر رہی ہے، اسے کسی کا ڈر نہیں،اسے یہ فکر نہیں کہ یہ پارک ہے ،گھر نہیں۔ وہ ایک ”غیر“ کے پاس ہے مگر پھر بھی اسے انتہائی تحفظ کا احساس ہے، اس کا یوں گفتگو کرنا باعثِ رحمت و اجر ہے ۔ یہ اس کائناتی معاہدے کا ثمر ہے جسے کاتبِ تقدیر نے مرقوم فرمایا اور اسے نکاح سے موسوم فرمایا۔
غزل نے اس ”پتھریلے صوفے پر منعقدہ نشست“ کے دوران کئی عقدے وا کئے اور یہ بھی باور کرا دیا کہ لوگ آنکھیں بند کر کے محبت کرتے ہیں مگر میں نے محبت کر کے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ لوگ تشنہ حقائق پر مبنی خواب دیکھتے ہیںاور میںتشنہ خوابوں سے حقائق کشید کرتی ہوں ۔ اکثر لوگ اپنے ہمسفر کی جانب سے چاہے جانے کی تمنا کرتے ہیں ، میں اپنے ہم سفر کو چاہنے کی کوشش کرتی ہوں،اکثر لوگ شریک حیات کا عمل دیکھ کر ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں، میںعمل میں پہل کر کے شریکِ زندگی کا ردِ عمل دیکھتی ہوں۔ 
پتا ہے ، آپ میرے لئے دگنی اہمیت کے حامل ہیںکیونکہ آپ صرف شوہر ہی نہیں شاعر بھی ہیں۔ادھر میں بھی آپ کی”مسز“ ہی نہیں بلکہ ”غزل“ بھی ہوںچنانچہ میری ذمہ داریاں بھی دوچند ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر شوہر کے دل میں ایک ایسا ساز ہوتاہے جس کے تار انگشتِ نسواں کی نزاکت سے خود بخود ہی بج اٹھتے ہیں اور بزمِ حیات میں نغمہ الفت گونجنے لگتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ شاعر” تخئیلِ غزل“ ہی نہیں،” تکمیلِ غزل“ کا طالب بھی ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر شوہر کے دل میں ایک ہیرو بستا ہے جسے اپنی ہیروئن کا انتظار رہتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ شاعرزندگی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی” غزل“ میں پہلے سے زیادہ نکھار کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر شوہر کے دل میں اک شہنشاہ ہوتا ہے جو ملکہ کوہر وقت اپنی مٹھی میں بند دیکھنا چاہتا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ شاعر ہرروز اک نئی غزل کا طالب ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعر کو ”اپنی غزل“ ہی سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اے میرے شاعر !میںیہ باور کرا رہی ہوں کہ میں ہی آپ کی ”غزل“ہوں جسے ”تکمیلِ غزل“ کرنی ہے، میری انہی انگلیوںسے آپ کے دل میں نغمہ  الفت گونجے گا،مجھے آپ کی ہیروئن بھی بننا ہے، مجھے آپ کی فرمانبردار ملکہ بن کر رہنا ہے۔ اے میرے شاعر بس ایک التجا ہے کہ اس مقصدِ حیات میں اگر مجھ سے کبھی جانے ان جانے میں کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو مجھ سے ناراض نہ ہونا بلکہ یہ سوچ کر میری خطا معاف کر دینا ہے کہ اچھی ہوں یا بُری” غزل صرف اپنے شاعر کی ہوں۔“
  میں نے غزل کی گفتگو سن کراستفسار کیا کہ آخر یہ سب باتیں تم نے کس سے سیکھیں، تو اس نے جواب دیا ”مس ٹیوٹر“ سے۔میں نے دل میں سوچا کہ کتنی عظیم ہستی ہو گی ”مس ٹیوٹر“ جس نے اپنی شاگردہ کو وہ سبق بھی سکھا دیئے جو زندگی تجربات کے باوجود نہیں سکھا پاتی۔(باقی:آئندہ)
 
 
 
 
 
 

شیئر: