Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصحف میں رسمِ عثمانی، تاریخی حقائق

جس دستور و منہاج پر ایک ہزار سال گزر گئے اور جو اہل علم میں متوارث رہا اس کا سلسلۂ سند اصل مصاحف عثمانیہ سے جاملتا ہے
* * * مولانا رشید احمد فریدی۔ سورت،ہند* * *
قرآن کریم اپنے نظم اور معنیٰ دونوں اعتبار سے معجزہ ہے ۔جس طرح وہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے، اسی طرح طریقۂ کتابت و طرز ِنقوش یعنی رسم الخط کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔ قرآن کریم کے رسم الخط کی حقیقت کیا ہے؟ اسے رسم عثمانی کیوں کہتے ہیں ؟قرآن پاک کا رسم عثمانی کے مطابق ہونا ضروری ہے اور امت میں متداول مصاحف رسم ِعثمانی کے مطابق ہیں وغیرہ۔ ان امور کی تفصیل کا یہ موقع نہیں البتہ رسم المصحف سے متعلق بہت اختصار کے ساتھ ایک تاریخی حقیقت پیش کی جاتی ہے تاکہ قرآن پاک کا رسمِ عثمانی کے مطابق ہونے کا مطلب واضح ہوجائے اور اگر کسی کو خلجان ہو تو دور ہو جائے۔ فن رسم کی بنیادی کتاب: یہ مسلَّم حقیقت ہے کہ قرآن کریم کا رسم الخط یعنی رسم ِعثمانی پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہوا ہے اور آج تک پوری امت مسلمہ کاا س پر اتفاق قائم ہے ۔یہ رسم ِعثمانی سماعی بلکہ توقیفی ہے، جو بہت سے اسرار و حِکَم پر مشتمل ہے۔ملاحظہ ہو ’’عنوان الدلیل فی مرسوم خط التنزیل‘‘ ۔
پس معلوم ہونا چاہیے کہ خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی ؓ کے حکم سے جب مصحف صدیقی کے لغت قریش پر متعدد نسخے تیار کیے گئے اور کوفہ، بصرہ، مکہ،مدینہ اور شام و بحرین روانہ کیے گئے اور اس کے مطابق نسخ و نقل کا فرمان امیر المؤمنین نے جاری کیا تو نسخ مصاحف کا سلسلہ قائم ہوگیالیکن یہ سب بے نقط و بے اعراب تھے اور جب نقطے و اعراب لگائے گئے تو امت نے عظمت سے اس کا استقبال کیا اور بہت سرعت سے بااعراب و بانقط مصاحف کا زریں سلسلہ چل پڑا۔ ساتھ ساتھ حضراتِ تابعینؒ و تبع تابعینؒ نے نظم ِقرآن سے متعلق قرأت مسندہ اور کلماتِ قرآنیہ کے طرز نقوش و طریقۂ کتابت کو بھی اپنی کتابوں میں ضبط کیاچنانچہ قرأت مسندہ پر اور رسم المصحف کی تحقیق میں متقدمین کی تصنیفات ’’کتاب القرأت ‘‘ اور ’’کتاب المصاحف ‘‘کے نام سے وجود میں آئیں (دیکھئے فہرست ابن الندیم )۔
گویا رسم ِعثمانی جس سے نظم ِقرآن مزین ہے، اس کا ذکر کتابوں میں بھی محفوظ ہوچکا تھا، اگر چہ بحیثیت علم و فن یکجا نہیں تھا یہاں تک کہ چوتھی صدی میں جو کہ سلَف کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے ابو عمرو عثمان الدانی کو فن رسم کے مدون اور واضع کی حیثیت سے ظاہر فرمایا۔ آپؒ نے عراق و حجاز اور شام وغیرہ کے مصاحف ِ قدیمہ کو غائر نظر سے ملاحظہ کرکے اور متقدمین کی کتاب المصاحف کو مدنظر رکھ کر تمام کلمات قرآنیہ کے طرزِخط و طریقۂ کتابت کو اجمال، مگر جامع انداز میں یکجا کیااور اس کے متعلق کلی یا جزئی ہدایات اپنی کتاب ’’المقنع‘‘ میں درج فرمائیں۔ یہی ہدایات خط مصحف کے اصول و ضوابط قرار پائے اور یہی اصول و ضوابط رسم المصحف یارسم ِعثمانی کہلاتے ہیں جس کی مطابقت کلام اللہ کے قرآن ہونے کے لئے ایک شرط لازم ہے۔ علامہ دانی کی ’’المقنع‘‘ اس موضوع پر اساس و خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔
امت کا تعامل: علامہ دانی ؒ کے بیان کردہ اصول و مستثنیات سے آپ کے شاگرد ابو داؤد سلیمان بن نجاح کے سواتمام تلامذہ نے اتفاق کیا اور علمائے اسلام نے اس کی پذیرائی کی اور مصاحف کے نقل میں ان اصول کی رعایت کی جانے لگی ۔پھر ایک صدی سے زائد عرصہ کے بعدفن قرأت ورسم کی ایک عبقری شخصیت حافظِ حدیث ،ماہر عربیت رئیس القراء علامہ ابو محمد قاسم الشاطبیؒ نے ’’المقنع‘‘ کو’’ عقیلہ‘‘کے لباسِ فاخرہ میں آراستہ کیا۔پھر شیخ الاسلام علم الدین سخاویؒ نے’’ الوسیلہ ‘‘کے ذریعہ ’’عقیلہ‘‘کے محاسنِ خفیہ کو ظاہر کیاتاکہ اہل علم کما حقہ مستفیدہو سکیں۔ خیر علامہ شاطبی کی طرف سے بعض کلمات کا اضافہ ہو یا علامہ سخاویؒ کی طرف سے بعض ترجیحات ہوں ،یہ سب علامہ دانی ؒکے اصول و ضوابط کے دائرہ سے خارج نہیں ، یہی وجہ ہے کہ عالَم اسلام میں نقل مصاحف کے سلسلہ میں ہمیشہ دانی و شاطبی رحمہم اللہ کے پیش کردہ اصول و ترجیحات کو اختیارکیا گیا ہے اور اس پر تعامل و توارث قا ئم ہے۔گویا جس طرح قرأت ِمتواترہ ائمہ قرأت کے نام کی طرف منسوب ہوکر معروف ہوگیا کچھ اسی طرح قرآن مجید کا ’’ رسم ِعثمانی‘‘ توحضرت عثمان غنی ؓ کی طرف ہی منسوب ہے البتہ علامہ دانیؒ کی امامت و سیادت فن رسم میں عند اللہ ایسی مقبول ہوئی کہ رسم ِعثمانی کی مطابقت کی تحقیق کے لئے ’’المقنع بلکہ عقیلہ ‘‘ سے موافقت کوضروری تسلیم کیا گیا،یہاں تک کہ محقق امام جزری جو بعض جگہ ابوداؤ د سلیمان بن نجاح سے زیادہ موافق نظر آتے ہیں لیکن اصولاً وہ بھی دانی و شاطبی رحمہم اللہ کے ہم خیال ہیں۔ حاصل یہ کہ رسم مصحف میں جو منہج علامہ دانی ؒنے پیش کیا ہے ائمہ رسم میں اقل قلیل اختلاف کے ساتھ وہی امت میں رائج و معمول ہے اور اہل علم و فن کی دیانت وانصاف پسندی ہر جگہ ہے اور یہاں بھی کہ رسم مصحف کے بیان میں علامہ دانی ؒکے تلمیذ لبیب ابوداؤد کے اختلاف کو بھی ذکر کرتے ہیں مگر عملی طور پر امت میں ابو داؤد کا منہج یعنی ان کے بعض اصول اور ترجیحات کو اختیار نہیں کیا گیا چنانچہ عالَم اسلام کے مشہور محقق ومحدث، صاحب التصانیف الکثیرۃ شیخ محمد زاہد الکوثریؒ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ گزشتہ صدیوں میں مصاحف کے رسمِ عثمانی کی مطابقت کی تحقیق علامہ شاطبیؒ کی ’’الرائیہ‘‘ اور اس جیسی کتابوں سے کی جاتی تھی ‘‘۔
پہلا مصحف: مستشرقین کی تحقیقی کاوشوں کے نتیجہ میں جب امام دانی ؒکے شاگرد سلیمان بن نجاح کی کتاب ’’التبیین‘‘دستیاب ہوئی تو امام دانیؒ کی ترجیحات پر تعامل و توارث قائم ہونے کے باوجود ابن نجاح کے اصول کو مد نظر رکھ کرایک جدید مصحف تیار کیا گیاچنانچہ شیخ محمد شفاعت ربانی محقق فن ِرسم مجمع ملک فہد مدینہ منورہ حفظہ اللہ نے اپنے مضمون ’’بر صغیر اور عرب ممالک میں طبع شدہ مصاحف کا رسم الخط علمی و تقابلی جائزہ ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ اس منہج کو جنہوں نے عملی جامہ پہنایا، وہ ہیں مصر کے مشہور عالم وقاری شیخ رضوان مخلّلاتی( متوفی1131ھ) ۔‘‘ یعنی ابو داؤد کی ترجیحات کے مطابق عالَم اسلام میں پہلی مرتبہ مصر میں چودھویں صدی کے اوائل میں مصحف منصہ شہود پر آیا۔بہر حال عالم اسلام بلکہ پورے عالَم میں جہاں بھی مسلمانوں نے قرآن پاک لکھا ہے، اگر اس میں رسم عثمانی کی رعایت ہے تو دستورِ کتابت وہی ہے جو شاطبیؒ کے توسط سے عالَم میں مشہور و منقول ہے۔
بر صغیر کے مصاحف: عالَم اسلام کا ایک بڑا حصہ ماضیٔ بعید میں غیر منقسم ہند بھی تھاجو بر صغیر کہلاتا ہے۔ اس وسیع و عریض ملک میں مسلمانوں کی 800 سالہ کامیاب حکمرانی رہی اور سلاطین نے علم اور اہل علم کی قابل قدرخدمت اور ان کی سرپرستی کی بالخصوص اورنگ زیب عالمگیر ؒ جو عدل گُستری وعلم پَروری اور پابندیٔ شرع میں خلیفۂ راشد سمجھے گئے ہیں،بدست خود مصحف شریف کی عمدہ کتابت کرتے تھے، آپ فن رسم سے بھی واقف تھے۔ آپ کا مصحف راقم نے بالاستیعاب دیکھا اور پڑھا ہے ۔اس وسیع و عریض ملک میں بے شمار مصاحف لکھے گئے۔ ان میں جو آب و گل کے نقصان سے بچ رہے، اس کی خاصی مقدار ملک کی قدیم لائبریری اور کتب خانوں میں موجود ہے اور راقم نے ان کا معائنہ کیا ہے اور جب طباعت کا دور شروع ہوا اور مصحف پہلی مرتبہ برطانیہ سے طبع ہوا وہ پہلا مطبوعہ نسخہ بھی راقم کی نظر سے گزراہے۔ پس مطبوعہ مصاحف اور قدیم مخطوطہ مصاحف کو اگر ان میں رسم کی مطابقت ہے ،بندہ نے دانیؒ کے منہج کے مطابق پایا ہے۔ لہٰذا جس دستور و منہاج پر ایک ہزار سال گزر گئے اور جو اہل علم میں متوارث رہا بلکہ امت مسلمہ جس سے مانوس و متفق رہی اور اس کا سلسلۂ سند اصل مصاحف عثمانیہ سے جاملتا ہے۔اس منہاج کے حق ہونے اور اس کے مطابق مخطوطہ و مطبوعہ مصاحف کے برحق ہونے میں ادنیٰ بھی شک نہیں کیا جاسکتا ورنہ اجماعِ امت کے اعتبار کا جھنڈا سرنگوں ہوجائے گا۔ سعودی مصاحف کا منہج: سعودی عرب کے سابق سلطان شاہ فہد بن عبد العزیزؒ نے قرآن کریم کی عالمی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور ’’مجمع ملک فہد ‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان ادار ہ قائم کیا۔اس کے ذریعہ سب سے پہلے عربی طرز ِخط میں جس مصحف کی اشاعت ہوئی اور آج تک ہورہی ہے، اس مصحف کے رسم عثمانی سے مطابقت کے لئے وہ منہج منتخب کیا گیا جو جامعہ ازہر مصر کے100 سالہ قدیم مطبوعہ ایک مصحف میں اختیار کیا گیا ہے جس کو مصر کے مشہور عالم و قاری شیخ رضوان مخلّلاتی نے متوارث منہاج یعنی علامہ دانیؒ کی ترجیحات کو چھوڑ کرابو داؤد سلیمان بن نجاح کی ترجیحات کے مطابق مصحف تیار کرایا جس کی شہادت اوپر پیش کی گئی ہے۔
ازہر مصر کا یہ مطبوعہ نسخہ راقم نے ملاحظہ کیا ہے جس کی پشت پر ابو داؤد کی ترجیحات کا ذکر صراحۃً موجود ہے اور اسی طرح کی صراحت’’ مجمع‘‘سے شائع ہونے والے عربی طرز کے مصاحف کے اخیر میں بھی موجود ہے اور جس کے داخلی قرائن یہ ہیں کہ جن چند کلمات میں کاتب کی فروگزاشت مصری نسخہ میں واقع ہوئی ہے وہ سعودی مصاحف میں بھی بعینہٖ موجود ہے۔ بہر حال ’’مجمع ‘‘سے شائع ہونے والے عربی طرزِ خط کے مصاحف بھی تر جیحی منہج بدل جانے کے باوجود رسم ِعثمانی کے مطابق ہیں اور عالَم عرب میں قبول عام حاصل کر چکے ہیں بلکہ سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالکِ عربیہ میں حکومت یا مؤقر ادارہ کے زیر انتظام جو مصاحف شائع کیے جا رہے ہیں وہ کاغذ، نقش ونگار اور جلد کے عمدہ معیار میں اگر چہ مختلف ہوں، نفس مصحف اسی مصری نسخہ یاسعودی مصحف کی نقل ہے ۔خط اور رسم الخط دونوں یکساں ہیں، جیسا کہ راقم الحروف نے شام ،بحرین ،قطر وغیرہ کے جدید مطبوعہ مصاحف کا معائنہ کیا ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ: رسم خط المصحف کے تعلق سے بعض علماء میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ جب اپنے مانوس ومعروف قرآن پاک کے علاوہ دوسرے علاقہ کے مصحف کو دیکھتے ہیں اور اس کا طرزِ خط الگ ہوتا ہے تو بلا تکلف زبان پر یہ جملہ آجاتا ہے کہ اِس مصحف کا رسم الخط الگ ہے اور ہمارے مصحف کا الگ چنانچہ اپنے علاقہ کے مطبوعہ مصاحف کے مقابلہ میں جو اُن کے نزدیک معتبر ومتداول اور رسم ِ عثمانی کے مطابق ہیں دوسرے علاقہ کے مصحف کے متعلق ذہنی خلجان اور شبہ ہوتا ہے کہ یہ رسم الخط کہاں سے اور کب سے ہے حالانکہ یہ سب خط (کتابت ولکھاوٹ) کا اختلاف ہوتا ہے، نہ کہ رسم الخط کا۔
رسم الخط تو تمام مصاحف میں خواہ وہ عربی ہو یا ہندی رسم ِ عثمانی ہی ہے۔ یہ شبہ اس لئے پیدا ہوا کہ خط کے فرق کو رسم الخط کا فرق سمجھ لیا گیا پس دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ خط ورسم الخط کا فرق : اصطلاحی اعتبار سے حروف ہجاء کو ملاکر لفظ کی صورت بنانے کو’’خط‘‘ کہتے ہیں اور یہ حروف سب مل کر رہیں گے یا کچھ الگ ، اور کوئی حرف بڑھایا جائے گا یا حذف ہوگا وغیرہ اسی وصل وقطع اور حذف و زیادت کی پابندی کا نام رسم الخط ہے (تذکرہ قاریان ہند ،ص9)۔ خط اور تلفظ کا فرق: یہ بات ذہن نشیں رہے کہ خط کے فرق سے کلمہ کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں ہوتا بخلاف قرأتِ سبعہ مشہورہ یا دیگر قرأت کے، کہ اس سے مراد الفاظ قرآن کے تلفظ ہی کا اختلاف ہے، مثلاً:’’مٰلک یوم الدین‘‘کوئی باثبات الالف پڑھتا ہے اور کوئی بحذف الالف اور رسم الخط میں حذف و زیادت، وصل و فصل کی پابندی ہوتی ہے، یہی مطلب ہے اس کے توقیفی ہونے کا جس طرح نظمِ قرآن معجز ہے اسی طرح اس کا رسم الخط بھی معجز ہے۔

شیئر: